کسی کی بھی پروانہ کی، وہ بھی ہماری جماعت سے ہے۔(ملفوظات حکیم الامت/۱۱۴)
اختلاف رائے کو برداشت کرنے اوراجتہادی معاملات میں اپنی ہی رائے کو حق سمجھنے پر اصرار سے بچنے کا واضح مظہریہ واقعہ ہے۔
اظہارِ رائے کی آزادی بہت بڑی نعمت ہے، مگر وہ لامحدود نہیں بلکہ اس کی کچھ حدیں ہیں جن سے تجاوز سے منع کیا گیا ہے، اس کے آداب بھی ہیں جن کی رعایت ضروری ہے، فکری آزادی کو معروف ومعلوم اور مسلمہ حقائق کے دائرے میں رہنا چاہئے، مفروضات، قیاسات واوہام کی بنا پر رائے نہ متعین کی جائے، غیر ذمہ دارانہ باتوں سے گریز کیا جائے، تحقیق کے بعد رائے ظاہر کی جائے، سنی سنائی باتوں ہی پر اعتماد نہ کیا جائے، حق آزادئ رائے کو استعمال کرتے وقت تشدد اور جارحیت سے مکمل اجتناب کیا جائے، بیجا غلو نہ کیا جائے، حق کے سامنے شخصی، مسلکی، اور گروہی تعصبات اور عقیدتوں کو کوئی اہمیت نہ دی جائے، حق کو سب سے برتر سمجھاجائے، اپنی رائے کے خلاف دلیل واضح ہوجانے کے بعد اپنی رائے سے رجوع کرلیا جائے، اختلاف رائے میں انصاف کی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے، اختلاف صرف اختلافی نکتہ تک محدود رکھا جائے اور اہانت اور ذاتیات پر حملے سے بچاجائے، اختلاف صرف بحث تک رہنا چاہئے، اسے دلوں کی کدورت تک نہ پہونچنے دیا جائے۔
سلف صالح کا اختلاف رائے اور حریت اظہار خیال دونوں ان حدود وآداب کے پابند رہتے تھے، ان کو نمونہ بنانے اور ان کی روشنی میں اپنا نہج متعین کرنے کی ضرورت ہے۔