مجلسِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اظہار رائے کی آزادی کی جو فضا ہوتی تھی اس کا ایک مظہر یہ واقعہ ہے، اپنی رائے کے برخلاف دوسری رائے آنے پر بغیر اشتعال کے سنجیدگی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سنا اور اس کی معقولیت محسوس کرکے بلاتاخیر اپنی رائے بدل دی اور دوسرے کی رائے پر عمل فرمایا۔
(۲) غزوۂ حنین کے موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اقرع بن حابس اورحضرت عیینہ بن حصن کو دل بستگی کے طور پرسو سو اونٹ عطا فرمائے، خلافت صدیقی کے دور میں یہ دونوں حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے اور زمین مانگی، حضرت صدیق اکبر نے اسوۂ رسول کی پیروی میں انہیں زمین دے دی اور اس کی تحریر بھی ان کے مطالبے پرعطا کردی، حضرت عمرؓ سے ان دونوں نے بتایا کہ خلیفہ نے ہمیں زمین دی ہے، تحریر دکھائی، حضرت عمر نے وہ تحریر پھاڑدی، اور فرمایا: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو اونٹ اس لئے دیئے تھے کہ تم اسلام پر جمے رہو، مگر اب اللہ نے اسلام کو طاقت عطا کردی ہے اوراسلام کو تم سے مستغنی کردیا ہے، اب تم کو کچھ نہیں ملے گا، اسلام پر جمے رہو تو بہت اچھا ورنہ یہ تلوار تمہارا فیصلہ کردے گی، یہ دونوں پھر حضرت صدیق اکبر کے پاس گئے واقعہ سنایامگر حضرت ابوبکر نے غور کرنے کے بعد حضرت عمر کی رائے سے اتفاق فرمایا اور تمام صحابہ نے اسے تسلیم کیا ۔(تفسیر مظہری:۴/۲۳۶)
مقام فکر یہ ہے کہ بظاہر اس واقعے میں خلیفۃ المسلمین پرشدید تنقید ہے مگر حضرت ابوبکر نے اسے ٹھنڈے دل سے گوارا کیا اورغور وفکر کے نتیجہ میں حضرت عمر کی رائے درست نظر آئی تو اسے قبول کرنے میں کوئی تأمل نہیں فرمایا۔
(۳) اظہارِ رائے کی آزادی کی حوصلہ افزائی کا روشن نمونہ حضرت عمر کا واقعہ ہے، مسجد نبوی میں دورانِ خطاب فرمایا کہ اگر تم میرے اندر کوئی کجی دیکھوگے تو کیا کروگے؟ اس پر