مسلمان دوسرے کو ایذا یا ضرر نہ پہونچائے، یہ سب تربیتی تعلیمات روشن حقائق ہیں ۔
اسی طرح احکام شریعت میں بھی حقیقت پسندی کے پہلو کو مکمل طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے، چنانچہ اسلام نے کسی ایسی چیز کو حرام نہیں قرار دیا ہے جس سے انسان کی واقعی ضروریات یا نفع متعلق ہو اورکسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا جس میں انسان کا نقصان ہو، پاکیزہ رزق، زیب وزینت وغیرہ کو قرآن نے حرام کرنے سے واضح انکار کیا ہے، اوراعتدال اور اسراف نہ کرنے کی شرط کے ساتھ اسے جائز رکھا ہے، اسلام نے انسان کی مائل بہ لہو ولعب وتفریح طبیعت دیکھ کر مختلف کھیل مثلاً تیر اندازی، شہ سواری، تیراکی اور جوا وحرام سے آلودہ نہ ہونے والے اور ذکر ونماز سے غافل نہ کرنے والے کھیلوں اور تفریحات کی اجازت دی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے موقعے پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے، آپ نے حبشیوں کو نیزہ بازی کا کھیل دکھانے کی اجازت دی اور خود حضرت عائشہؓ کے ساتھ دیکھا اورواضح کردیا کہ :
یہودیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارا دین توسع رکھتا ہے، اس میں تنگی نہیں ہے۔ (مسند احمد)
اسلام نے عورت کی تزین پسند فطرت کی رعایت کرتے ہوئے اسے سونے چاندی کے استعمال اور ریشم پہننے کی اجازت دی ہے، اضطراری حالت میں ناروا وحرام چیزوں کی ضرورۃً حلت بھی اسلامی شریعت کی حقیقت پسندی کا واضح نمونہ ہے۔
اسی طرح اسلام انسانی فطرت کی کمزوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سدّ ذرائع کے اصول کا قائل ہے کہ جو چیز ذریعۂ ارتکاب حرام بن سکتی ہے خواہ جائز ہی کیوں نہ ہو اُس کو بھی حرام کردیا ہے، اجنبی عورت کے ساتھ خلوت کا حرام ہونا اس کی نمایاں مثال ہے۔
اسلام انسانی جنسی وشہوانی ضرورت کا خیال رکھتا ہے، اسی لئے نکاح کا حکم ہے، غلبۂ شہوت یا دوسرے مقاصد کی بنیاد پر عدل کی شرط کے ساتھ تعدد ازدواج کی بھی گنجائش دی گئی