نوافل کا ایک وسیع سلسلہ بھی ہے۔
مزید براں اسلام انسان کے ہنگامی حالات مثلاً مرض اورسفر وغیرہ کو بھی سامنے رکھتا ہے اور رخصتوں اورسہولتوں کا دائرہ بڑھاتا ہے، بیماری ومعذوری کے عالم میں بیٹھ یا لیٹ کر نماز پڑھنے، تیمم سے کام لینے، روزہ توڑ دینے اور سفر میں قصر وغیرہ احکام اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ، ہرجگہ اسلام عسر اور تنگی کے بجائے یسر اورسہولت کی حقیقت سامنے رکھتا ہے۔
اسلام کی اخلاقی تعلیمات بھی حقیقت پسندی کا شاہکارہیں ، عدل وانصاف کا حکم ہو یا ظالم کے ظلم کے جواب میں عادلانہ انتقام یا کریمانہ عفو ودرگذر ہو، یا دوسرے اوصاف وآداب ہوں ہرجگہ حقیقت پسندی نمایاں ہے، اسلام یہ واضح کرتا ہے کہ تمام انسان اخلاقی وایمانی قوت میں یکساں نہیں ہوتے بلکہ انسانوں میں فطری اورعملی اعتبار سے تفاوت ہوتا ہے، قرآنی زبان میں کچھ اپنے اوپر ظلم کرنے والے یعنی لاپروا اورگنہ گار ہوتے ہیں اورکچھ میانہ رو ہوتے ہیں اور کچھ نیکیوں کی طرف بہت سبقت کرنے والے ہوتے ہیں ، اسلام یہ بھی بتاتا ہے کہ کوئی انسان نبی کے سوا معصوم نہیں ہوتا، انسان خطا ونسیان سے آلودہ ضرور ہوتا ہے، اورگناہوں کی آلودگی سے بچنا تو بہ رجوع الی اللہ اورتقویٰ سے ہوتا ہے۔
تربیت اوراصلاح وتزکیہ کے باب میں بھی اسلام بیحد حقیقت پسند ہے، اسلام اپنی تربیت واصلاح کی مہم میں توازن واعتدال کو اولین مقام دیتا ہے جس کا اہم ترین ہونا واضح حقیقت ہے اورافراط وتفریط اور غلو وتعصب سے اجتناب کی تلقین کرتا ہے، اسلام ہر مسلمان کو اپنی اوراپنے اہل خانہ کی نجات کا سامان تیارکرنے کا حکم دیتا ہے، اور ہر انسان کو ذمہ دار اور ذمہ داری کے لئے جواب دہ اورمسئول قرار دیتا ہے، باپ کو بچوں کی تربیت کی تلقین کرتا ہے، اور حکم دیتا ہے کہ بچے دس سال کے ہونے پر سمجھانے سے نماز نہ پڑھیں تو انہیں مارا جائے، یعنی باپ کو اولاد کے سلسلے میں سنجیدہ اور فکر مند ہونا چاہئے، اسی طرح تاکید کرتا ہے کہ کوئی