شریعت نے واضح کردیئے ہیں اور انہیں سمجھنا اوربرتنا بھی بہت آسان ہے۔
احکام شریعت کا معاملہ بھی یہی ہے، اصولی طور پر حلال وحرام بالکل واضح ہیں ، ہر صاحب شعور مسلمان سمجھتا ہے کہ مردار، خون، خنزیر، غیر اللہ کے نام پر ذبح شدہ جانور، یا غیر اللہ کے نام چڑھائی گئی نیاز، شراب، جوا، محارم سے شادی، سود، زنا، چوری، ڈاکہ، قتل، الزام تراشی، نشہ سب حرام ہے، اور ان سے بچنا فرض ہے، جب کہ جو چیزیں حلال طیب ہیں ان کو استعمال کرنے کا حکم ہے اور ان سے بلا وجہ احتیاط معیوب سمجھی گئی ہے۔
ان اصولی چیزوں کے علاوہ دین اسلام اور شر یعت اسلامی کے مصادر ومآخذ بھی بالکل عیاں ہیں ، سب سے بنیادی مأخذ قرآن ہے جو کتاب مبین ہے، جسے اس کی وضاحت کی وجہ سے نور، دلیلِ واضح اور رہنما بتایا گیا ہے، دوسرا مأخذ سنت رسول ہے، جو اقوال، افعال اور تائیدات (تقریرات) کے مجموعے کا نام ہے، اور جو قرآن کی نظریاتی تشریح اور عملی تطبیق کا نام ہے، اس لئے حضرت عائشہ نے فرمایا کہ :
کَانَ خُلْقُہُ الْقُرآنَ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن کا پَر تَو تھے۔
یعنی قرآن کی عملی تفسیرتھے، اورپیغمبرکا کام قرآن میں یہی بتایا گیا ہے کہ
لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ۔ (النحل/۴۴)
آپ لوگوں کے سامنے ان پر نازل شدہ آیات کی توضیح کریں تاکہ وہ غور کریں ۔
اور اسی لئے آپ کی زندگی کے ہر گوشے کو قرآن نے پوری دنیائے انسانیت کے لئے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ قرار دیا۔
سنت محمدی ہی کے ذیل میں خلفائے راشدین کی سنت بھی آجاتی ہے، جس کی وجہ ان