کی زمینوں کا ٹیکس حضرت عمرؓ کی وفات سے پہلے دسیوں لاکھ درہم تک پہونچ چکا تھا۔
اسلامی مساوات میں عمر اور ماہ وسال کے لحاظ سے امتیازی سلوک نہیں ملتا، یہ تو ضرور حکم ہے کہ بڑوں کا احترام کیا جائے، ادب کیا جائے، آنے جانے میں ، کھلانے پلانے میں ، مدد کرنے میں ان کو مقدم رکھا جائے لیکن اور ذمہ داریوں میں معیار صلاحیت اور اہلیت اور دینداری ہے، نہ کہ عمر اور ماہ وسال، حضرت اسامہ بن زیدؓ کو انتہائی کم عمری میں آپ ؐ نے اس لشکر کا قائد بنایا جس میں حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ جیسے اکابر صحابہ بھی موجود تھے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو علمی رسوخ کی وجہ سے صغر سنی کے باوجود حضرت عمرؓ نے اپنی خاص مجلسِ مشاورت کارکن متعین فرمایا تھا اور ان کی آراء پر عمل در آمد کیا تھا۔
ایک لڑکے نے حضرت عمر بن العزیزؒ سے کہا’’ امیر المؤمنین! آدمی دل اور زبان سے پہچانا جاتا ہے، عمر کا اعتبار نہیں ہوتا ورنہ آپ کے منصب پر آپ سے زیادہ عمر کا شخص فائز ہوتا۔
اسلام نے حرفت اور پیشہ کے لحاظ سے بھی مساوات کا التزام کیا ہے، اسلام کسی پیشہ اور حرفت کو حقیر اور معمولی نہیں قرار دیتا، امانت اور خدا ترسی کے ساتھ انجام دیا جانے والا ہر عمل اور پیشہ قابل تعریف ہے، حضرت عمرؓ نے مکہ سے گذرتے ہوئے ایک بار خادموں کو کھڑا دیکھا کہ وہ اپنے سرداروں کے ساتھ نہیں کھارہے ہیں ، آپ نے سرداروں کو ڈانٹا اورفرمایا: کہ اللہ کی رحمت ونعمت کو عام کرو، سب مل کر کھاؤ، ہر طرح کی تفریق ختم کردو، اور پھر یہ آیت پڑھی۔
أَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا وَ رَحْمَۃُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۔ ( الزخرف:۳۲)
کیا آپ کے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ؟ دنیا کی زندگی میں