یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو، ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، یہی لوگ ہیں جن کے لئے ان کے عمل کی دہری جزا ہے اور وہ بلند وبالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے۔
یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِاْلقِسْطِ شُہَدائَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلَیٖ أَنْفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ إِنْ یَکُنْ غَنِیًّا أَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ أَوْلَیٰ بِہِمَا فَلا تَتَّبِعُوْا الْہَوَیٰ أَنْ تَعْدِلُوْا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تَعْرِضُوْا فَإِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْراً۔ ( النساء : ۱۳۵)
اے ایمان والو! انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمہارے انصاف اور گواہی کی زد خو د تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو، فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے، لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو، اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان لو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
حضرت عمر اولاً بیت المال سے عطیات کی تقسیم میں مساوات کے قائل نہ تھے لیکن پھر حالات کے مشاہدہ اور کثرت مال کے بعد انھوں نے تقسیمِ مال میں مساوات کے حضرت ابوبکرؓ کے فیصلہ کی طرف رجوع کرلیا تھا، اور فرمایا تھا کہ ’’ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو برابر سرابر تقسیم کروں گا‘‘ مگر اس سے پہلے آپ کی وفات ہوگئی۔
شام وعراق اور مصر وغیرہ کی مفتوحہ زمینوں کے بارے میں حضرت عمرؓ نے یہ طرز عمل اختیار کیا کہ انھیں غازیوں میں تقسیم نہ کیا تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں بالکل محروم نہ رہیں ، بلکہ یہ زمینیں حکومت کی ملکیت رہیں اور خزانۂ عام میں اضافہ کا سبب ثابت ہوئیں ، کیونکہ تنہا کوفہ