کرنے میں تاخیر اور رعایت نہ کی، فاتحِ مصر حضرت عمرو بن العاص کے صاحبزادے نے کسی عام مصری کو ماردیا، حضرت عمرؓ نے اس مصری کو بلا کر پورا حق قصاص برملا عطا فرمایا اور انصاف وعدل ومساوات کی ایک ناقابل فراموش نظیر قائم فرمادی اور پھر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا۔
مَتَیٰ استعبدتم الناس وقد ولدتہم أمہاتہم أحرارا۔
تم نے لوگوں کو غلام کب سے بنالیا جب کہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جَنا تھا۔
ایک شخص نے حضرت عمرؓ کے پاس حضرت علیؓ کے خلاف مقدمہ دائر کیا، مدعی کا بیان سننے کے بعد حضرت عمر نے حضرت علیؓ سے ( جوان کے بغل میں بیٹھے ہوئے تھے) فرمایا: اے ابوالحسن: اٹھیے اور مدعی کے ساتھ بیٹھئے، حضرت علیؓ نے حکم کی تعمیل کی، معاملہ رفع دفع ہونے کے بعد حضرت علی کے چہرہ کا رنگ بدلا ہوا دیکھ کر حضرت عمر نے دریافت کیا کہ کیا آپ کو کوئی بات ناگوار گذری ہے؟ اس پرحضرت علی نے فرمایا کہ ہاں مجھے یہ ناگوار گذرا کہ آپ نے مجھے نام کے بجائے کنیت سے پکارا اور احترام کا معاملہ کیا، آپ کو میرا نام لے کر حکم دینا چاہئے تھا، اس پر حضرت عمر نے ان کا ماتھا چوم لیا اور فرمایا ’’ میرا باپ آپ پر قربان ہو، آپ ہی لوگوں کے ذریعہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی اور کفر کے اندھیرے سے نکال کر اسلام کی روشنی میں داخل کیا ہے‘‘۔
اسلام میں مالدار اور فقیر کے درمیان کوئی امتیازی برتاؤ درست نہیں ہے، سب برابر ہیں ، مال ودولت ایمان وعمل خیر کے بغیر بالکل بے مایہ ہے، قرآن میں فرمایا گیا:
وَمَا أَمْوالُکُمْ وَلاَ أَوْلاَدُکُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنَا زُلْفَیٰ إِلاَّ مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَأُولٰئِکَ لَہُمْ جَزَائُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَہُمْ فِیْ الغُرُفَاتِ آمِنُوْنَ۔ ( السبأ :۳۷)