تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
فقہی مسائل میں اجتماعی غور وفکر کی ضرورت حضرت مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ فقہی مسائل میں اجتماعی غور وفکر کا سلسلہ قرون اولیٰ سے چلا آتا ہے جن مسائل میں قرآن و سنت کے اندر کوئی نص صریح نہیں ہے ان میں قرآن و سنت ہی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق احکام شرعیہ معلوم کرنے کے لیے خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک زریں ہدایت نامہ دیا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کا حکم قرآن و سنت میں مذکور نہیں تو اس میں ہمارے لیے کیا ارشاد ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاوروا الفقہاء العابدین ولا تمضوا فیہ رأیاً خاصۃ (رواہ الطبرانی فی الاوسط ورجالہ موثقون من اہل الصحیح کذا فی مجمع الزوائد للہیثمی ۱؍۱۷۸)۔ اس حدیث کے مقتضیات پر عمل کرتے ہوئے مختلف زمانوں میں علماء امت کا طریقہ رہا ہے کہ وہ نئے پیش آنے والے احکام دینیہ خصوصاً اجتماعی نوعیت کے مسائل میں باہمی غور وفکر مشورہ اور بحث و تمحیص کے بعد کوئی فتویٰ دیتے تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا عمل بھی اسی پر تھا، فقہی مسائل کی تحقیق کے لیے انہوں نے ماہر فقہاء عابدین کی جو مجلس بنائی ہوئی تھی اس کا مقصد بھی یہی تھا، مغلیہ حکومت کے دور میں فتاوی عالم گیری جیسی عظیم الشان کتاب بھی اسی طرح مرتب ہوئی، آخر دور میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا طریقہ کار بھی یہ تھا کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں بالخصوص ان مسائل میں جو عالمگیر اورا جتماعی اہمیت کے حامل ہوں محض اپنی انفرادی رائے پر اعتماد فرمانے کے بجائے وقت کے ماہر فقہاء عابدین سے مشورہ فرماتے