تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
مفصل فتویٰ لکھنے کا طریقہ مفصل فتووں میں بعض اوقات مسئلہ کے احکام، اس کے دلائل اور شبہات کے جوابات اس طرح گڈمڈ ہوجاتے ہیں کہ عام پڑھنے والے کا ذہن الجھ جاتا ہے اور سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے نہ صرف پورا فتویٰ پڑھنا پڑتا ہے بلکہ بعض اوقات پورے فتویٰ کو پڑھ کر بھی بآسانی جواب کا خلاصہ ذہن میں نہیں بیٹھتا، حضرت والدؒ صاحب کا انداز فتویٰ نویسی جس کی آپ دوسروں کو بھی تاکید فرماتے تھے اس سے مختلف تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ فتویٰ میں مسئلہ کا مختصر حکم اور اس کے مفصل دلائل بالکل ممتاز ہونے چاہئے تاکہ جو شخص صرف حکم معلوم کرنا چاہتا ہو وہ بآسانی حکم معلوم کرلے اورجس شخص کو دلائل سے دلچسپی ہو وہ دلائل بھی پڑھے، فتوے میں عام آدمی کے لیے تو صرف حکم ہی ہوتا ہے اور دلائل اہل علم کے لیے ہوتے ہیں ، اس لیے ایک عام آدمی کو فتوے کے شروع ہی میں مختصراً یہ بات واضح طور سے معلوم ہونی چاہئے کہ جس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا ہے اس کا مختصراً جواب کیا ہے؟ اس جواب کے بعد اہل علم کے لیے دلائل کی تفصیل، حوالے اور شبہات کے جوابات جتنی تفصیل سے چاہیں دے دئیے جائیں ۔ چنانچہ حضرت والد صاحبؒ کے فتوؤں میں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ فتوے کے شروع یا اخیر میں بالکل نمایاں اور ممتاز طریقہ پر مسئلہ کا واضح جواب لکھ دیتے ہیں اور زیادہ تر یہ جواب شروع میں ہوتا ہے۔ حضرت والد صاحبؒ فرماتے تھے کہ قدیم فقہاء اور مفتی حضرات کا طریقہ یہی تھا اورایک روز غالباً حضرت شاہ جلال صاحب تھانیسری کے بعض فتاویٰ دکھائے جو اپنے موضوع پر مفصل فتاوی تھے لیکن ان کا طریقہ یہی تھا کہ سائل نے کسی چیز کے بارے میں