تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
یہ پوچھا تھا کہ ہَلْ یَجُوْزُ؟ اس پر حضرت شاہ جلال صاحب نے شروع میں لکھا تھا ’’الجواب، نعم یجوز‘‘ اور اس کے بعد دلائل کی مفصل بحث فرمائی تھی۔ حضرت والدصاحبؒ نے اس کوبطور مثال پیش کرکے فرمایا کہ یہ فتویٰ نویسی کا بہترین اسلوب ہے کہ پڑھنے والے کو سوال کا جواب ایک ہی لفظ سے مل گیا، اب اگر کوئی دلائل پڑھنا چاہتا ہے تو پڑھے اور نہیں پڑھنا چاہتا ہے تو چھوڑدے۔ نرا حکم معلوم کرنے کے لیے پورا مفصل فتویٰ پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔۱؎سوال کے تجزیہ و تنقیح کی ضرورت اسی طرح سوال بعض اوقات تہ در تہ ہوتا ہے اور سوال کرنے والا تمام باتوں کو گڈمڈ کرکے پوچھتا ہے۔ ایسے مواقع پر حضرت والدصاحبؒ کا طریقہ یہ تھا کہ جواب میں پہلے سوال کا تجزیہ خود فرمالیتے اور یہ تنقیح فرمادیتے کہ اس مسئلہ میں فلاں فلاں باتیں قابل غور ہیں پھر ان میں سے ہر ایک پر نمبر وار بحث فرماتے تھے۔ اس طرح مسئلے کے تمام گوشے پوری طرح واضح ہوکر سامنے آجاتے تھے،اور مسئلے کی تفہیم میں کوئی پیچیدگی باقی نہیں رہتی تھی۔ ۲؎غایت درجہ تحقیق و احتیاط کی ضرورت افتاء کا منصب علمی سلسلوں میں سب سے زیادہ مشکل دقیق ترین سمجھا گیا ہے فقہ کی متماثل جزئیات اور ان کے متعلقہ احکام میں تھوڑے تھوڑے فرق سے حکم کا تفاوت محسوس کرنا عمیق علم کو چاہتا ہے جو کہ ہر عالم و مدرس کے بس کی بات نہیں جب تک فقہ سے کامل مناسبت، ذہن و ذکاء میں خاص قسم کی صلاحیت اور قلب میں مادۂ تفقہ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب مکمل تحقیق کے باوجود استفتاء کے جوابات ------------------------------ ۱؎ البلاغ ص:۴۲۷۔ ۲؎ ایضاً ص:۴۲۷تا ۴۳۰ ۔