تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
کے جوابات دیتے رہے فرماتے ہیں ۔ ’’احقر کو بہت سی جگہ اختلاف رائے بھی ہوتا، بندہ عرض کردیتا کہ یہ جواب آپ کی رائے کے مطابق لکھ دیا ہے آپ دستخط فرمادیں ، میں دستخط نہیں کروں گا،میری گذارش بشاشت سے قبول فرماتے اور دستخط فرمادیتے؟۔۱؎شیخ سے فقہی اختلاف نیز آپ نے بعض مسائل میں اپنے شیخ و مربی حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے فقہی اختلاف فرمایا ہے جس سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ شیخ سے فقہی اختلاف اپنے نفس کی اصلاح میں مانع نہیں اور شیخ کو بھی مرید کے فقہی اختلاف سے اظہار ناراضگی یا انقباض نہ ہونا چاہئے، بلکہ شیخ کی اپنی غلطی ہو تو اس سے رجوع ہوجانا چاہئے جیسا کہ حضرت تھانویؒ اور حضرت مفتی صاحبؒ کا طرز عمل تھا( جس کی تفصیل جواہر الفقہ میں موجود ہے)۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت والد صاحب قدس سرہ کا مذاق یہ تھا کہ اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہنے کے باوجود طعن و تشنیع اور دل آزار اسلوبِ بیان سے مکمل پرہیز کیا جائے۔۲؎مداہنت سے کلی اجتناب لیکن اس نرمی کا یہ مطلب نہیں کہ حق کو حق یا باطل کو باطل کہنے میں مداہنت سے کام لیا جائے کیونکہ کفرکو کفر تو کہنا ہی پڑے گا کیونکہ مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے ضروری اظہار کے بعد محض اپنی نفسانیت کی تسکین کے لیے فقرہ بازیاں نہ کی جائیں ، حضرت والد صاحب فرماتے تھے کہ داعیٔ حق کی مثال ریشم جیسی ہونی چاہئے کہ اس کو چھوکر دیکھو تو اتنا نرم ملائم کہ ہاتھوں کو حظ نصیب ہو لیکن اگر اسے کوئی توڑنا چاہے تو اتنا سخت کہ تیز ------------------------------ ۳؎ البلاغ ص: ۷۳۰۔ ۲؎ البلاغ ص: ۴۶۸۔