تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
ہوتا ہے، حضرت والدصاحب کو اللہ تعالیٰ نے علوم دین اور بالخصوص فقہ وفتوی میں جو مقام بلند عطافرمایا، وہ اللہ تعالیٰ کی عطا ء خاص کے علاوہ اس طرز عمل کا نتیجہ ہے جو آپ نے اس سلسلہ میں اختیار فرمایا اور اس طرز عمل کا خلاصہ احقر کی ناچیز رائے میں چار چیزیں ہیں ۔ (۱) پیہم محنت (۲) للہیت (۳) بزرگوں کی صحبت اوران سے تربیت حاصل کرنے کا اہتمام (۴) اورغایت احتیاط۔ ان چار باتوں کے مکمل اہتمام کے نتیجہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو فقہ اورفتوی میں وہ مقام بخشا جو ان کے اہل عصر میں سب سے زیادہ منفرد اور ممتاز تھا۔۱؎شعبۂ افتاء اورفتوی نویسی کی اہمیت وافادیت ایک روز آپ نے فتوی کے ساتھ اس قدر شغف اور انہماک کا سبب خود بیان فرمایا جس سے اس طرز عمل کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ فرمایا: دینی خدمت کے جتنے شعبے ہیں ، ان میں سے فتوی وہ شعبہ ہے جس کا فائدہ نقد ظاہر ہوجاتا ہے، انسان تصنیف کرتا ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کتنے لوگ پڑھیں گے؟ اسی طرح وعظ تقریر کرنے والے کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس کے بیان سے کوئی متأثر ہوکر اس کی بتائی ہوئی بات پر عمل کرے گا یا نہیں ؟ یہی حال تدریس کا ہے کہ طلبہ میں سے کتنے اس سے حقیقی فائدہ اٹھائیں گے، یہ معلوم نہیں ہوتا اس کے برخلاف مفتی کے پاس عموماً وہی شخص سوال بھیجتا ہے جسے دین کی طلب ہوتی ہے اورجو مفتی کے فتوی کے مطابق عمل کرنا چاہتا ہے۔ اور عام طور سے اس پر عمل کر بھی لیتا ہے اس لئے اس کا فائدہ اگرچہ بظاہر محدود ہے لیکن نقد اور متعین ہے، اس کے علاوہ اس خدمت میں شہرت طلبی وغیرہ کے مکائدِ نفس دوسری خدمات کے مقابلہ میں کم ہیں اس لئے اس میں اجر وثواب کی امید زیادہ ہے۔ ------------------------------ ۱؎ البلاغ ازحضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی ص: ۴۱۱۔ ۲؎ ایضاً ص:۴۳۰و ۴۳۱