تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
دھار بھی اس پر پھسل کر رہ جائے، چنانچہ مباحثہ تحریری ہو یا زبانی، حضرت والد صاحبؒ حق کے معاملہ میں ادنیٰ لچک کے روا دار نہیں تھے، لیکن بات کہنے کا طریقہ ہمیشہ ایسا ہوتا جس سے عناد کے بجائے دلسوزی، حق پرستی اور للہیت متر شح ہوتی تھی۔۱؎حق پرستی و انصاف پسندی علم و تحقیق کے سفرمیں ایسے مراحل بھی آتے ہیں جہاں ایک طالب علم کو دوسرے طالب علم سے اختلاف کرنا پڑتا ہے اور بعض مقامات پر اپنے بڑوں سے بھی اختلاف کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت والد صاحب کا طرز عمل یہ تھا کہ نہ تو کسی کا ادب و احترام اس سے اختلاف رائے کے اظہار میں مانع ہوا اور نہ کبھی اختلاف رائے نے ادب و احترام میں ادنیٰ رخنہ اندازی کی، آپ نے بعض مسائل میں بھی اختلاف کیا بلکہ اپنے شیخ و مربی حکیم الامت حضرت تھانوی سے بھی چند فقہی مسائل میں اختلاف رائے رہا، اور خود حضرت نے آپ سے یہ فرمایا کہ تمہارے دلائل پرمجھے شرح صدر نہیں ہوتا اورمیرے دلائل پر تمہیں شرح صدر نہیں ، اس لیے دونوں اپنے اپنے موقف پر رہیں تو کچھ حرج نہیں ۔۲؎ اپنے اساتذہ اور بزرگوں کی عظمت و عقیدت آپ کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ آپ نے کبھی اس عقیدت کو مسائل کی تحقیق و تنقید میں حائل نہیں ہونے دیا، اور نہ کبھی اپنی تنقید سے کسی کی عظمت و عقیدت پر حرف آنے دیا، ایسا کرنا مشکل ضرور ہے لیکن اس مشکل کو آپ نے جس خوش اسلوبی سے انجام دیا وہ اہل علم کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔۳؎ اس سلسلہ کی جو خط و کتابت ’’مکاتیب حکیم الامت‘‘ میں محفوظ ہے وہ تحقیق و تنقید، ------------------------------ ۱؎ البلاغ ص:۴۶۹۔ ۲؎ البلاغ ص: ۴۹۴۔ ۳؎ البلاغ ص:۱۷۱-۱۷۲۔