تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
شرعی محاکمہ سے قبل موصوف جدید مسائل کی ان کے ماہرین سے پوری تحقیق بڑی کدو کاوش کے ساتھ فرماتے،اور جب تک ماہرین کی تحقیقات پر اطمینان نہ ہوجاتا فتویٰ صادر نہ فرماتے بلکہ مزید تحقیقات فرماتے، چنانچہ آپ مشینی ذبیحہ کے متعلق فرماتے ہیں جب تک ان مشینوں کی صحیح صورت حال معلوم نہ ہو کوئی جواب دینابے کار ہے۔ آگے موصوف رقم طراز ہیں ان حالات میں کسی مفروضہ صورت پر بحث فضول ہے جب تک کہ در آمد کی ہوئی مشین کی صحیح صورت حال معلوم نہ ہو، کوئی فتوی نہیں دیا جاسکتا۔۱؎تقلید شخصی شرعی حکم نہیں لیکن انتظامی اور واجبی امر ہے حضرت والد صاحبؒ اکابر دیوبند کے مسلک کے مطابق تقلید شخصی کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس دور ہوا وہوس میں اسی کو سلامتی کا راستہ سمجھتے تھے اور جب کبھی ائمہ اربعہ کے درمیان دلائل کے محاکمہ کا سوال آتا تو فرمایا کرتے تھے کہ یہ ہمارا منصب نہیں ہے کیونکہ محاکمہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جانبین کے علمی مقام سے اگر بلند تر نہ ہو تو کم از کم ان کے مساوی تو ہو، اور آج اس مساوات کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، البتہ ساتھ ہی حضرت شیخ الہندؒ کا یہ مقولہ سنایا کرتے تھے کہ تقلید شخصی کوئی شرعی حکم نہیں ہے بلکہ ایک انتظامی فتوی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ چاروں ائمہ مجتہدین بر حق ہیں اور ہرایک کے پاس اپنے موقف کے لیے وزنی دلائل موجود ہیں ، لیکن اگر ہر شخص کو یہ کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ جب جس امام کے مسلک کو چاہے اختیار کرلے تو ہر شخص اپنی آسانی کی خاطر آج ایک مسلک پر عمل کرلے گا، کل دوسرے مسلک پر اور اس طرح اتباع خداوندی کے بجائے اتباع نفس کا دروازہ کھل جائے گا۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ بحوالۂ جواہر الفقہ ، البلاغ ص:۷۵۷۔ ۲؎ البلاغ ص:۴۱۹۔