تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
حالات و زمانہ کے بدل جانے سے حکم بدل جانے کی حقیقت اسی ذیل میں ایک مرتبہ فرمایا کہ اس قسم کے فتوے بعض اوقات زمانوں کے اختلاف سے بالکل بدل جاتے ہیں اس کی بنا بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ علماء اپنی مرضی سے احکامِ شریعت میں رد و بدل کرتے ہیں ، حالانکہ در حقیقت وہ شرعی احکام کی بتدیلی نہیں ہوتی بلکہ حالات کے لحاظ سے نسخے اور تدبیر کی تبدیلی ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی قدس سرہ سے کسی نے کہا کہ حضرت یہ کیا بات ہے کہ جب ہندوستان میں انگریزی تعلیم کا آغاز ہوا تو اکابر علماء نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت کے فتوے دئیے۔ لیکن آپ حضرات یہ کہتے ہیں کہ مفاسد سے اجتناب کے ساتھ انگریزی تعلیم حاصل کرنے میں کچھ حرج نہیں اس کے جواب میں حضرت علامہ عثمانیؒ نے جو بات ارشاد فرمائی وہ لوح دل پر نقش کرنے کے لائق ہے۔ فرمایا کہ یہ شرعی حکم کی تبدیلی نہ تھی بلکہ بات یہ ہے کہ جب کسی علاقہ پر کسی وبا کے مسلط ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اطباء ایسی تدبیریں بتاتے ہیں جن سے اس وباکو روکا جاسکے۔ لیکن جب وبا آجاتی ہے تو پھر معالجوں کی تدبیر بدل جاتی ہے اور اس وقت ایسے نسخے بتائے جاتے ہیں جن کے ذریعہ وہ بیماری آنے کے بعد شفاحاصل ہو، بالکل یہی معاملہ یہاں بھی ہوا ہے، واقعہ یہ ہے کہ جدید علوم وفنون یا کسی زبان کی تحصیل کو بذات خود کبھی کسی نے حرام نہیں کہا لیکن اس وقت چونکہ علماء کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے کہ یہ علوم و فنون یا انگریزی زبان تنہا نہیں آئیں گے بلکہ ملحدانہ عقائد و نظریات اوردین بیزاری کی وبا ساتھ لائیں گے جس کا مشاہدہ بعد میں سب کو ہوگیا، اس لیے شروع میں انہوں نے اس وبا کو روکنے کی تدبیر کی اور بہت سے مسلمانوں کا ایمان بچالیا لیکن جب