تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
پر مرتب نہیں ہے اس کا اصل موضوع جنگ وصلح، جہاد، غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات وغیرہ ہے لیکن ضمناً اس میں بہت سے اہم مسائل دوسرے ابواب سے متعلق بھی آگئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت والد صاحب نے اس کا مکمل طورپر یا اس کے بہت بڑے حصہ کا مطالعہ فرمایا تھا، بہت سے بظاہر غیر متعلق مسائل اس کے حوالہ سے ذکر فرمایا کرتے تھے۔ ’’شرح السیرالکبیر‘‘ کے اس نسخہ پر جو آپ کے مطالعہ میں تھا جا بجا آپ کے قلم سے نوٹ ملتے ہیں ۔۱؎فقہی رسائل کے دیکھنے اور ان کے جمع کرنے کا اہتمام فقہ وفتوی کی عام کتابوں کے علاوہ آپ کو ان کتب اور رسائل سے بھی شغف تھا جو کسی خاص مسئلہ کی تحقیق کے لئے لکھے گئے ہوں ، چنانچہ آپ علامہ ابن نجیم کے رسائل زینیہ، علامہ شامیؒ کے رسائلِ ابن عابدین، حضرت مولانا عبدالحئی لکھنوی صاحب ؒ، حضرت علامہ ظہیرا حسن نیمویؒ اوردوسرے علماء کے مجموعہ ہائے رسائل بڑی احتیاط کے ساتھ رکھتے اوران سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ چنانچہ آپ کی فقہ کی الماری میں کئی خانے اسی قسم کے رسائل سے بھرے ہوئے ہیں اور ان پر آپ کے قلم کی لکھی ہوئی یادداشتوں اور نشانات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ محض الماری کی زینت ہی نہیں بلکہ آپ کے مطالعہ میں رہے ہیں ، گفتگو کے دوران بارہا ایسا ہوتا کہ کسی موضوع پر بات چھڑتی توآپ فرماتے کہ فلاں عالم نے اس موضوع پر مستقل رسالہ لکھا ہے اس قسم کے رسائل کبھی کبھار چھپتے ہیں اورایڈیشن ختم ہونے پر نایاب ہوجاتے ہیں ، اس لئے حضرت والدصاحب قدس سرہ کو جہاں کہیں اس طرح کا کوئی رسالہ ملتا آپ اسے غنیمت سمجھ کر خرید کر رکھتے تھے اور اگر خریدنا ممکن نہ ہوتا تو اسے ------------------------------ ۱؎ البلاغ ص:۴۰۲۔