تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
اس مکتوب میں علامہ کوثری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت والد صاحب ؒ کے علم وفضل کی رسمی تعریف نہیں کی بلکہ باقاعدہ آپ کو صحیح معنی میں ’’فقیہ النفس‘‘ کا خطاب دیا ہے اور جو لوگ علامہ زاہدالکوثری کے تبحر علم سے واقف ہیں انہیں اندازہ ہوگا کہ ان کے الفاظ کو کسی تصنع یا مبالغہ پر محمول نہیں کیاجاسکتا۔ ۱؎ در اصل حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ فطرتاً ’’فقیہ النفس‘‘ تھے۔ اس پر حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب اور حضرت مجددالملۃ تھانویؒ جیسے نادر روزگار، فقید المثال فقہاء اور صاحب فتوی بزرگوں کی صحبت وتعلیم وتربیت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا تھا۔۲؎ (اسی فقاہت نفس کا نتیجہ تھا کہ) اس بات کا بارہا مشاہدہ ہوا کہ کتابوں کی مراجعت سے پہلے آپ ابتداء اً اپنا جو خیال ظاہر فرماتے ، کتابوں کی طویل ورق گرادنی کے بعد اس خیال ہی کی تائید ہوتی تھی۔ اوراس وقت اندازہ ہوتا تھا کہ اس سوال کو محض احتیاط کی خاطر روکا تھا ورنہ اس کا صحیح جواب اس مذاق سلیم کے پاس موجود تھا۔۳؎حضرت تھانویؒ کا آپ پر اعتماد۴؎ بعض دفعہ کسی مسئلہ میں جواب لکھا مگر دل مطمئن نہ ہوا تو لکھ دیا کہ: اس فن کے ماہر ہمارے ملک میں دوبزرگ ہیں حضرت مولانا ظفر احمد صاحب اور حضرت مفتی شفیع صاحب وہاں ضرور بھیج دیں اور جو جواب آئے اسے حق سمجھیں اورمجھے بھی مطلع کردیں ۔ ایک دفعہ ایک عورت کا خط تھانہ بھون میں آیا اپنی مشکل کے حل کا مسئلہ پوچھا، ------------------------------ ۱؎ البلاغ ص ۴۱۵ از مولانا اشرف خاں صاحب ۔ ۲؎ البلاغ از مفتی تقی صاحب مدظلہ۔ ۳؎ البلاغ از مولانا مفتی محمدتقی صاحب مدظلہ۔ ۴؎ از مولانا مفتی جمیل احمد صاحب تھانوی، البلاغ ص ۷۹۱۔