تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
بے نفسی اور حق پرستی کا ایسا جیتا جاگتا نمونہ ہے کہ آج کل کی دنیا میں اس کی مثالیں نایاب ہیں ۔ آج کل تو دعوؤں اور اظہار برتری کا نام علمی تحقیق رکھ دیا ہے اور حملہ بازی اور دوسرے کی تنقیص و تذلیل کو ’’تنقید‘‘ کا مقدس نام دے دیا گیا ہے جو بات ایک مرتبہ زبان سے نکل گئی پتھر کی لکیر بن کر وقار کا مسئلہ بن جاتی ہے لیکن یہ سب باتیں نفسیات کی پیداوار ہیں اور جہاں فریقین کا مقصود ہی حق کی تلاش ہو وہاں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کہنے والا میری رائے کے موافق کہہ رہا ہے یا مخالف، وہاں نظر اس پر رہتی ہے کہ کس دلیل سے کہہ رہاہے۔ چنانچہ حضرت حکیم الامتؒ کے یہاں جو فتاویٰ کا سلسلہ جاری تھا ان میں آپ نے ایک مستقل ’’ترجیح الراجح‘‘ کا باب رکھا تھا۔ اس باب میں وہ فتاویٰ درج کئے جاتے تھے جن سے حضرت نے کسی کی توجہ دلانے سے یا خود ہی تحقیق بدل جانے کے باعث رجوع کرلیا ہو، سلف صالحین، صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کا یہی رنگ تھا اور اسی کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔۱؎بڑوں سے اختلاف رائے کا طریقہ ایسے مواقع پر حضرت والدصاحب کا عام معمول یہ تھا کہ جن صاحب سے اختلاف رائے ہوا ہے نہ صرف یہ کہ ان کے ادب و احترام میں کوئی ادنیٰ فرق نہ آنے دیتے بلکہ ان کے کلام کا کوئی صحیح محمل تلاش کرکے لکھ دیتے۔ مثلاً اوزان شرعیہ میں رائج الوقت اوزان کے لحاظ سے ’’درہم‘‘ کی مقدار مقرر کرنے میں آپ نے حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی جیسے بڑے محقق عالم سے اختلاف فرمایا لیکن اس کے لیے صرف اپنے دلائل اور حضرت مولانا کے دلائل کی تردید پر اکتفا ------------------------------ ۱؎ البلاغ ص: ۱۷۱۔