تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
حضرت والد صاحبؒ کے نزدیک اس اطمینان کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی ایک مفتی خود رائی کے ساتھ یہ فیصلہ نہ کرے بلکہ دوسرے اہل فتویٰ حضرات سے مشورہ کرے اگر وہ بھی متفق ہوں تو اتفاق رائے کے ساتھ ایسا فتویٰ دیا جائے۔ ۲: دوسری بات یہ ہے کہ جس امام کا قول اختیار کیا جائے اس کی پوری تفصیلات براہ راست اس مذہب کے اہل فتویٰ علماء سے معلوم کی جائیں محض کتابوں میں دیکھنے پر اکتفاء نہ کیا جائے، کیونکہ بسا اوقات اس قول کی بعض ضروری تفصیلات عام کتابوں میں مذکور نہیں ہوتیں اور ان کے نظر انداز کردینے سے تلفیق کا اندیشہ رہتا ہے۔ ۳: تیسری بات یہ ہے کہ ائمہ اربعہ سے خروج نہ کیا جائے کیونکہ ان حضرات کے علاوہ کسی بھی مجتہد کا مذہب مدون شکل میں ہم تک نہیں پہنچا، اور نہ ان کے متبعین اتنے ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی قول استفاضہ یا تواتر کی حد تک پہنچ جائے۔۱؎ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ نے ’’عقد الجید‘‘ میں ائمہ اربعہ سے باہر جانے کے مفاسد تفصیل سے بیان فرمائے ہیں ۔ چنانچہ مصیبت زدہ خواتین کے لیے حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے مالکی مذہب پر فتوی دینے کا ارادہ کیا، تو ان تمام باتوں کو پوری احتیاط کے ساتھ مد نظر رکھا اوربراہ راست مالکی علماء سے خط و کتابت کے ذریعہ مذہب کی تفصیلات معلوم کیں ، اور تمام علماء ہند سے استصواب کے بعد فتوی شائع فرمایا۔ (یہ رسالہ ’’الحیلۃ الناجزہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے)۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ البلاغ ص:۴۱۹۔ ۲؎ البلاغ ص:۴۱۹-۴۲۰۔