تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
تحریر فرمانے میں غایت احتیاط سے کام لیا کرتے تھے۔۱؎ نیز حضرت مفتی صاحب جب تک مسئلے کی پوری تحقیق نہ فرمالیتے اور اس تحقیق پر مکمل شرح صدر نہ ہوجاتا فتویٰ صادر نہ فرماتے تھے اور جہاں ضرورت ہوتی احتیاط سے کام لیتے ہوئے اجتناب کا حکم صادر فرماتے۔۲؎ اگر حضرت مفتی صاحب کو کسی مسئلہ میں تردد یا شبہ ہوجاتا تو سائلین کو دوسرے ائمہ فقہ کی طرف رجوع کرنے اور ان سے مسئلہ دریافت کرکے عمل کرنے کی ترغیب فرماتے۔۳؎ خود بھی بعض مسائل میں دوسرے علماء سے استفادہ فرمایا کرتے تھے۔ خصوصاً اپنے ذاتی مسائل میں تو اکثر رجوع فرمایا کرتے تھے۔۴؎خود رائی سے اجتناب اور بڑوں وہمعصروں سے مشورہ کی ضرورت خودرائی اور خودبینی سے والد صاحب کو سخت نفرت تھی، روز مرہ کے عام معاملات میں بھی اپنے چھوٹوں تک سے مشورہ لینے کے عادی تھے خصوصاً فتویٰ جو دنیا و آخرت کی نازک ذمہ داری تھی اس میں تو سبھی بزرگوں سے اور خصوصاً حضرت حکیم الامتؒ سے استفادہ کرنے کا کوئی موقع فروگذاشت نہ فرماتے تھے۔ ۵؎ حضرت والد صاحب حضرت حکیم الامت تھانویؒ کی یہ گرانقدر نصیحت باربار سنایا کرتے تھے کہ جب تک تمہارے ضابطہ کے بڑے موجود ہوں ان سے استصواب کئے (یعنی ان سے رائے و مشورہ لیے) بغیر کبھی کوئی اہم کام نہ کرو اور جب ضابطہ کے بڑے نہ رہیں تو اپنے معاصرین اور برابرکے لوگوں سے مشورہ کرو، چنانچہ ساری عمر والد صاحب کا عمل اسی کے مطابق رہا۔ ------------------------------ ۱؎ البلاغ ص:۷۱۲۔ ۲؎ البلاغ ص:۱۲-۷۱۳۔ ۳؎ البلاغ ص:۷۲۵۔ ۴؎ البلاغ ص:۷۲۸۔ ۵؎ ۱۷۱