تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
فطرتاً غصہ آتا ہے اور جواب بھی اسی انداز سے دیتا ہے مگر ان آیات میں ان کے بیہودہ سوالات کا جو جواب حق تعالیٰ نے اپنے رسول ا کو تلقین فرمایا وہ قابل نظر اور مصلحین امت کے لیے ہمیشہ یاد رکھنے اور لائحہ عمل بنانے کی چیز ہے کہ ان سب کے جواب میں نہ ان کی بیوقوفی کا اظہار کیا گیا نہ ان کی معاندانہ شرارت کا، نہ ان پر کوئی فقرہ کسا گیا بلکہ نہایت سادہ الفاظ میں اصل حقیقت کو واضح کردیا گیا کہ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ جو شخص خدا کا رسول ہوکر آئے وہ سارے خدا کے اختیارات کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہو یہ تخیل غلط ہے، رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔۱؎تنقید کرنے کا مؤثر طریقہ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَائَ َنا الخ۔ قرآن نے اس جگہ تقلید آبائی کے خوگر لوگوں کی غلطی کو واضح فرمایا اور اس کے ساتھ ہی کسی دوسرے پر تنقید اور اس کی غلطی ظاہرکرنے کا ایک خاص مؤثر طریقہ بھی بتلادیا جس سے مخاطب کی دل آزاری یا اس کو اشتعال نہ ہو، کیونکہ دین آبائی کی تقلید کرنے والوں کے جواب میں یوں نہیں فرمایا کہ تمہارے باپ دادا جاہل یا گمراہ ہیں بلکہ ایک سوالیہ عنوان بنا کر ارشاد فرمایا کہ کیا تمہارے باپ دادا کی پیروی اس حالت میں بھی کوئی معقول بات ہوسکتی ہے جب کہ باپ دادا نہ علم رکھتے ہوں نہ عمل۔۲؎علمی تنقید کی اجازت ہے مگر طعن و تشنیع ممنوع ہے طَعَنُوْا فِی دِیْنِکُمْ (سورۂ توبہ پ:۱۰)کے لفظ سے بعض حضرات نے اس پر استدلال کیا ہے کہ مسلمانوں کے دین پر طعن و تشنیع کرنا عہد شکنی میں داخل ہے۔جو شخص اسلام اور شریعت اسلام پر طعنہ زنی کرے اس سے مسلمانوں کا معاہدہ نہیں رہ سکتا۔ مگر باتفاق فقہاء اس سے مراد وہ طعن و تشنیع ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی اہانت ------------------------------ ۱؎ معارف القرآن سورۂ کہف ۵؍ ۵۲۰، بنی اسرائیل۔ ۲؎ معارف القرآن سورہ توبہ ۴؍ ۳۲۵۔