تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
نہیں کیا بلکہ جستجو کرکے وہ وجہ بھی بیان فرمادی، جس سے حضرت مولانا کا عذر واضح ہوجاتاہے۔۱؎طعن و تشنیع ودلآزار اسلوب کا نقصان حضرت والد صاحب فرماتے تھے کہ میں آغاز شباب میں دوسروں کی تردید کے لیے بڑی شوخ اور چلبلی تحریر لکھنے کا عادی تھا اور تحریری مناظروں میں میرا طرز تحریر طنز و تعریض سے بھرپورہوتا تھا اور ’’ختم نبوت‘‘ میں نے اسی زمانہ میں لکھی تھی لیکن اس کے شائع ہونے کے بعد ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس نے میرے انداز تحریر کا رخ بدل دیا اور وہ یہ کہ میرے پاس ایک قادیانی کا خط آیا جس میں اس نے لکھا تھا کہ آپ نے اپنی کتاب ختم نبوت میں جو دلائل پیش کئے ہیں ، بنظر انصاف پڑھنے کے بعد وہ مجھے بہت مضبوط معلوم ہوتے ہیں اس کا تقاضا یہ تھا کہ میں مرزا صاحب کی اتباع سے تائب ہوجاؤں لیکن آپ نے اس کتاب میں جو اسلوب بیان اختیار کیا ہے وہ مجھے اس اقدام سے روکتا ہے میں سوچتا ہوں کہ جو لوگ حق پر ہوتے ہیں وہ لوگ دلائل پر اکتفا کرتے ہیں ، طعن و تشنیع سے کام نہیں لیتے، اس لیے میں اب تک اپنے مذہب پر قائم ہوں اور آپ کے طعن وتشنیع نے دل میں کچھ ضد بھی پیدا کردی ہے۔ حضرت والد صاحبؒ فرماتے تھے کہ یہ تو معلوم نہیں کہ ان صاحب نے یہ بات کہاں تک درست لکھی تھی لیکن اس واقعہ سے مجھے یہ تنبہ ضرور ہوا کہ طعن و تشنیع کا یہ انداز مفید کم ہے اور مضر زیادہ۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے ’’ختم نبوت‘‘ پر اس نقطۂ نظر سے نظر ثانی کی اور اس میں ایسے حصے حذف کردئیے جن کا مصرف دلآزاری کے سوا کچھ نہ تھا، اور اس کے بعد کی تحریروں میں دلآزار اسلوب سے مکمل پرہیز شروع کردیا۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ البلاغ ص:۴۹۶۔ ۲؎ البلاغ ص:۴۶۵۔