تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
شامی اور بدائع الصنائع کے متعلق حضرت مولانا خلیل احمدصاحبؒ سہارنپوری کی رائے فتویٰ لکھنے میں حضرت اکثر شامی ملاحظہ فرمایا کرتے مگر جس قول کے وہ ناقل ہوتے اس کو تو حضرت حجت سمجھتے اور جو صاحب شامی کی ذاتی رائے ہوتی اس کو حجت قرار نہ دیتے بلکہ تنقید و تحقیق کرتے اورفرمایا کرتے کہ معاصر ہیں ہم رجال ونحن رجال۔ ان کی رائے ہم پر حجت نہیں جب تک کہ اسلاف کے قول سے مؤید نہ ہو۔ اوقات فراغ میں حضرت بدائع کو اکثر دیکھا کرتے ،بارہا سنا ہے کہ حضرت اس کے مصنف کو بہت دعائیں دیتے اور فرمایا کرتے تھے کہ واقعی یہ شخص فقیہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو فقہ ہی کے واسطے پیدا فرمایا تھا۔ مولوی ظفر احمد صاحبؒ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ حضرت فقہ سے مناسبت پیدا ہونے کی کوئی صورت ارشاد فرمائیں فرمایا کہ مفتیوں کی عادت یہ ہے کہ صرف استفتاء آنے کے وقت کتابیں دیکھتے ہیں اس سے کام نہیں چلتا اور جواب میں بہت غلطی ہوجاتی ہے کیونکہ اس وقت جلدی میں ایک جگہ کو دیکھ کر جواب لکھ دیتے ہیں حالانکہ دوسرے مقام میں اس مسئلہ کے اندر تفصیل معلوم ہوتی ہے جس سے اس واقعہ مسئولہ کا حکم بدل جاتا ہے پس فقہ سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے شامی اوربدائع کو بالاستیعاب دیکھنا چاہئے۔ حضرت گنگوہیؒ نے شامی کو کئی بار بالاستیعاب ملاحظہ فرمایا ہے اس وقت تک بدائع مطبوع نہیں ہوئی تھی اب میں شامی کیساتھ اسکے مطالعہ کو بھی ضروری سمجھتا ہوں ۔ حقیقت میں بدائع عجیب کتاب ہے، ایک بار فرمایا کہ جزئیات تو زیادہ شامی میں ہیں مگر اصول اور فقہ کی لِم (علتیں ) زیادہ بدائع میں کہ اس سے مناسبت ہوجائے تو فقہ میں طبیعت چلنے لگے۔ (تذکرۃ الخلیل ص:۲۹۴)