تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
تک احرام کو مؤخر کرنا اور جدہ سے باندھنا نہ کوئی گناہ ہے اور نہ اس سے دم لازم آتا ہے جو تسہیل امت کی بین دلیل ہے۔ اسی طرح آپ نے حج بدل کرنے والے کے لیے ملاعلی قاریؒ اور حضرت گنگوہی کے خلاف تمتع کرنے کی گنجائش دی ہے۔۱؎ نیز حج بدل کے ایک اور مسئلہ میں جس میں علماء کا اختلاف ہے آپ نے اس میں سے اہون و اسہل کو اختیار فرمایا ہے۔ (ملاحظہ ہو جواہر الفقہ)۔۲؎سہولت کی وجہ سے دوسرے مذاہب پر فتوی دینے کی ضرورت اور اس کے حدودو شرائط چونکہ چاروں مذاہب بلاشبہ برحق ہیں اور ہر ایک کے پاس دلائل موجود ہیں ، اس لیے اگر مسلمانوں کی کوئی شدید اجتماعی ضرورت داعی ہو تو اس موقع پر کسی دوسرے مجتہد کے مسلک پر فتوی دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ، حضرت والد صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت گنگوہیؒ قدس سرہ نے حضرت تھانویؒ کو یہ وصیت کی تھی اور حضرت تھانویؒ نے ہم سے فرمایا کہ آج کل معاملات پیچیدہ ہوگئے ہیں اور اس کی وجہ سے دیندار مسلمان تنگی کا شکار ہیں اس لیے خاص طور سے بیع و شراء اور شرکت وغیرہ کے معاملات میں جہاں بلویٰ عام ہو، وہاں ائمہ اربعہ میں سے جس امام کے مذہب میں عام لوگوں کے لیے گنجائش کا پہلو ہو اس کو فتویٰ کے لیے اختیار کرلیا جائے۔ لیکن حضرت والد صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ کسی دوسرے امام کا قول اختیار کرنے کے لیے چند باتوں کا اطمینان کرلینا ضروری ہے۔ ۱: سب سے پہلے تو یہ کہ واقعۃً مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت متحقق ہے یا نہیں ، ایسا نہ ہو کہ محض تن آسانی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرلیا جائے، اور ------------------------------ ۱؎ البلاغ ص: ۷۶۷۔ ۲؎ البلاغ ص: ۷۶۸۔