تحفۃ المفتی ۔ اہل علم و ارباب افتاء و قضاء کے لئے اہم ہدایات |
فادات ۔ |
|
اس فارمولے کا مطلب پہلے ہر پڑھے لکھے شخص کو معلوم ہوتا تھا لیکن اب اگر یہ جملہ کسی گریجویٹ بلکہ پی ایچ ڈی کے سامنے بھی آجائے تو وہ اس کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا اور اس سے میراث کی تقسیم میں خلل واقع ہوسکتا ہے۔ اول تو آج لوگوں کو یہ بھی احساس نہیں رہا کہ میت کے ترکہ میں کیا چیزیں شامل ہوتی ہیں چنانچہ عام طور سے میت کے ذاتی استعمال کی چھوٹی موٹی چیزوں بلکہ بعض اوقات گھر کے ساز و سامان تک کو ترکہ کی تقسیم میں شامل نہیں کیا جاتا، پھر نہ لوگوں کو حقوق متقدمہ علی الارث کا مطلب معلوم ہے اور نہ ان کے مصداق کا پتہ ہے اس لیے حضرت والدصاحبؒ نے میراث کے مسائل میں اس جملے کے بجائے حسب ذیل طویل عبارت لکھوانی شروع کی کہ: ’’صورت مسئولہ میں مرحوم نے جو کچھ نقدی زیور یا جائداد یا چھوٹا بڑا سامان چھوڑا ہو اس میں سے پہلے مرحوم کی تجہیز و تکفین کے متوسط اخراجات نکالے جائیں پھر اگر مرحوم کے ذمہ کچھ قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے اور بیوی کا مہر اگر ابھی تک ادا نہیں کیا تو وہ بھی دین میں شامل ہے، اس کو ادا کیا جائے۔ پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کسی غیر کے حق میں کی ہو تو (ایک بٹاتین)۳/۱ کی حد تک اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ اس کے بعد جو ترکہ بچے اسے حسب ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم کیا جائے‘‘۔ یہ تو ایک مثال تھی ورنہ حضرت والد صاحب نے فتویٰ نویسی کے پورے اسلوب میں عام روش سے ہٹ کرا یسا طریقہ اختیار کیا ہے جس سے ایک طرف فتوی کی شوکت اورفقہی باریکیاں برقرار رہیں ، اور دوسری طرف اس کی عبارت میں سلاست اور عام فہمی پیدا ہوجائے، چنانچہ جو حضرات آپ سے فتوی کی تربیت لیتے ان کو بھی آپ اس بات کی تاکید فرماتے اس کی باقاعدہ مشق کراتے اورا ن کی عبارت کی اصلاح پر کافی وقت خرچ کرتے تھے۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ البلاغ ص: ۴۲۸۔