ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2017 |
اكستان |
|
آنکھ بندکر کے اُن پر اُنگلی رکھنے کو کہا جاتا ہے جس پر اُنگلی پڑتی ہے اُس کے اِعتبار سے نیچے اُس حرف کے سامنے لکھی ہوئی پیشین گوئیاں پڑھ کر اپنے اَحوال معلوم کرتے ہیں، یہ سب سراسر جہالت اور گمراہی ہے بلکہ آج کے مشینی دور میں قسمت کے اَحوال جاننے کے لیے مشین بھی تیار ہوگئی ہے، بس اَڈوں، ریلوے اسٹیشنوں پر دیکھا ہے کہ دل کے اَحوال بتانے والی کوئی مشین ہوتی ہے جو اِنسانوں کے دِل کے اَحوال کا علم دیتی ہے، لوگ کان میں لگانے والے آلے کے ذریعے اُس مشین کے واسطے سے اپنے اَحوالِ قلب کو سنتے ہیں اور وہاں لوگوں کی بھیڑ اور ایک تانتا لگا ہوا ہوتاہے۔ یاد رکھیے ! غیب کا علم اللہ عز وجل کے سوا کوئی نہیں جانتا ، خود طوطا، مینا لے کر بیٹھنے والے کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کل کیا کرے گا ؟ اور بے چارے کی قسمت کا علم اُس کو ہوتا تو اِس چالو روڈ پر بیٹھ کر یہ چالو کام کرتا ہوا نہیں ہوتا، کوئی شخص نہیں جانتا وہ کل کیا کرے گا ؟ اور نہ ایک دُوسرے کو اِس بارے میں کوئی علم ہے، اِرشاد باری تعالیٰ ہے : (وَمَا تَدْرِیْ نَفْس مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًا ) ١ ''کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کو کیا کرے گا۔'' نیز اِرشادِ خدا وندی ہے : (قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ) ٢ ''اے نبی ۖ ! آپ فرماد یجیے کہ جولوگ آسمان و زمین میں ہیں وہ غیب کو نہیں جانتے، غیب کو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ '' یہ عجیب بات ہے کہ آدمی توخود اپنا حال نہ جانے اور غیر عاقل جانور کو پتہ چل جائے کہ اُس کی قسمت میں کیا ہے ایک حدیث میں حضور اکرم ۖ کا اِرشاد گرامی ہے کہ : مَنْ اَتَی عَرَّافًا فَسَاَلَہ عَنْ شَیْئٍ لَمْ تُقْبَلْ لَہ صَلٰوة اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ۔ ٣ ''جو شخص کسی ایسے آدمی کے پاس گیا جو غیب کی باتیں بتاتاہو پھر اُس سے کچھ بات پوچھ لی تواُس کی نماز چالیس دِن تک قبول نہ ہوگی۔ '' اور ایک حدیث میں اِرشادِ نبوی ہے کہ : ------------------------------١ سُورہ لقمان : ٣٤ ٢ سُورة النمل : ٦٥ ٣ مسلم شریف رقم الحدیث ٢٢٣٠