کسی ناپاک اور حرام چیز سے علاج کرنا جائز ہے یا نہیں ، اِس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر حالت اضطرار کی ہو یعنی اگر حرام چیز کو استعمال کیے بغیر جان کا بچنا مشکل ہو تو بقدرِ ضرورت تداوی بالمحرّم بالاتفاق جائز ہے ، لیکن اگر جان کا خطرہ نہ ہو ، بلکہ مرض کو دور کرنے کے لئے تداوی بالمحرم کی ضرورت ہو تو اس میں فقہاء کا اختلاف ہے :
امام مالک واحمد بن حنبل : تداوی بالمحرّم بالکل جائز نہیں ۔
شوافع اور احناف : تداوی بالمحرّم جائز ہے ، بشرطیکہ اور کوئی ذریعہ علاج کا نہ ہو۔
پھر شوافع واحناف میں اختلاف ہے کہ تداوی بالمحرّم کے جواز میں مُسکرات بھی شامل ہیں یا نہیں :
شوافع :مُسکرات شامل نہیں ، چنانچہ نشہ آور اشیاء سے علاج ضرورۃً بھی جائز نہیں ۔
احناف :مُسکرات بھی شامل ہیں ، یعنی ضرورۃً تداوی بالمحرّم مطلقاً جائز ہے ، خواہ مُسکر ہو یا غیر مُسکر۔(فقہی مقالات :4/138 تا 145)(تحفۃ الالمعی:1/318)(انتہاب المنن :1/151)
علاج بالمحرّم کی شرائط:
ہر حرام اور ناپاک دواء کا استعمال خواہ کھانے پینے میں ہو یا خارجی استعمال میں ، جائز ہے ، بشرطیکہ مندرجہ ذیل پانچ شرائط پائی جائیں :
(1)حالت اضطرار کی ہو یعنی جان کا خطرہ ہو۔
(2)دوسری کوئی حلال دواء کار گرنہ ہو ، یا موجود نہ ہو ۔
(3)اُس دواء سے مرض کا ازالہ عادۃً یقینی ہو ۔
(4)اُس کے استعمال سے لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو ۔
(5)بقدرِ ضرورت سے زائد اُس کو استعمال نہ کیا جائے ۔(معارف القرآن عثمانی :1/426)
کیا علاج بالمحرم ضروری ہے ؟