حدیث فرار عامی لوگوں کے لئے جبکہ حدیث ِ أکل مع المجذوم خاص یعنی توکل کے اعلیٰ درجہ پر فائز افراد کے لئے ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح :4/1711)
٭اِنَّ الْمُؤمن یأکل فی مِعیً واحدٍ:مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے٭
آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے ۔
بظاہر اِس حدیث میں اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبھی مشاھدہ اِس کے خلاف ہوتا ہے کہ مؤمن زیادہ اور کافر کم کھاتے نظر آتے ہیں ، پھر اِس حدیث کا کیا مطلب ہے ؟
حدیث کا مطلب :
(1)باعتبار اغلب اور اکثر کے کہا گیا ہے یعنی اکثر کافر زیادہ اور مؤمن کم کھاتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں یہ ضابطہ کلیہ نہیں ، اکثریہ ہے ۔(تحفۃ الاحوذی :5/442)
(2)حدیث میں ”المؤمن“ سے مراد کامل درجہ کا مؤمن ہے جس کے اوپر آخرت کی فکر اتنی سوار ہوجاتی ہے کہ اُس کا کھانا پینا بہت کم ہوکر رہ جاتا ہے ۔کما فی الحدیث : مَنْ كثُر تَفَكُّره قلَّ طعمُه ومنْ قلَّ تفكُّره كثر طعمُه وَقَسَا قَلْبُهُ(تحفۃ الاحوذی :5/442)
(3)مؤمن کھاتے ہوئے بسم اللہ پڑھتا ہے پس شیطان اُس کے ساتھ شریک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ کم کھاتا ہے ، جبکہ کافر بسم اللہ کے بغیر کھاتا ہے تو شیطان کے شریک ہوجانے کی وجہ سے وہ زیادہ کھاتا ہے ۔(تحفۃ الاحوذی :5/442)
(4)یہاں آنتوں اور کھانے سے حقیقۃً کھانا اور آنتوں کابھرنا مراد نہیں ، بلکہ مجازی طور پر ”تقلّل من الدنیا “ اور ”استکثار من الدنیا “ یعنی دنیا کم اور زیادہ جمع کرنا مراد ہے ، گویا کھانے سے مراد دنیا جمع