(2)ــــدوسری بات : کراہیت مسجد نبوی کے ساتھ خاص نہیں ۔
یہ کراہیت صرف مسجدنبوی کے ساتھ خاص نہیں ، جیسا کہ حدیث کے جملے ” فَلَا يَقْرَبْنَا فِي مَسْجِدِنَا “ سے استدلال کرکے بعض علماء نے اختیار کیا ہے ، بلکہ اِس سے مراد تمام مساجد ہیں ۔(تحفۃ الاحوذی :5/428)
(3)ــــتیسری بات : کراہیت صرف مسجد کے ساتھ خاص نہیں ۔
مساجد کے ساتھ اِس میں وہ تمام مقامات اور مواقع بھی شامل ہیں جس میں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے ، فرشتوں کا نزول ہوتا ہے ، جیسے علم و ذکر کی مجالس ، دینی و اصلاحی اجتماع ، قرآن کریم کی تلاوت ۔(تحفۃ الاحوذی :5/428)
(4)ــــچوتھی بات : کراہیت صرف ثوم و بصل کے ساتھ خاص نہیں ۔
حدیث میں اگرچہ ثوم و بصل کو ذکر کیا ہے ، لیکن اِس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو منہ میں بد بو پیدا کرے ،جیسے سگریٹ نوشی وغیرہ ۔ اسی طرح ہر وہ حالت بھی اِس میں شامل ہے جس سے لوگوں کو تکلیف و اذیت پہنچتی ہے ، جیسے بعض بیماریاں اِس طرح کی ہوتی ہیں یا زخم اِس طرح کے ہوتے ہیں جس سے لوگوں کو گھن آتی ہے ۔ پس ایسی حالت میں مسجد جانا بھی مکروہ ہوگا ۔( فتح الباری :9/575)(تحفۃ الاحوذی :5/428 ۔ 430)
(5)ــــپانچویں بات : کراہیت صرف بدبو پیدا ہونے کی صورت میں ہے ۔
ثوم و بصل اگر مطبوخ یعنی پکے ہوئے ہوں تو اُن کے کھانے سے چونکہ منہ میں بو پیدا نہیں ہوتی اِس لئے اُنہیں کھاکر مسجد جانے میں بھی کوئی حرج نہیں،کما فی الحدیث: نُهِيَ عَنْ أَكْلِ الثُّومِ، إِلَّا مَطْبُوخًا(ترمذی:2/3)
لیکن واضح رہے کہ محض پکانے سے کراہیت کا حکم ختم نہیں ہوتا ، اصل چیز بو کا ختم ہونا ہے ، پس اگر وہ بغیر پکائے بھی ختم ہوجائے(جیسا کہ پیاز کو سرکہ وغیرہ میں ڈال دیا جاتا ہے ) تو کراہیت کا حکم نہیں لگے گا ، اور اگر پکانے کے بعد بھی بو باقی رہے تو کراہیت کا حکم ہی باقی رہے گا ۔(الکوکب الدری:3/15)