مثلاً :کوئی بھوک سے تڑپتے ہوئے اِس حالت میں پہنچ جائے کہ بچنے کا کوئی امکان نہ ہو اور جان نکل رہی ہو اور اب کھانے کا کوئی فائدہ نہ ہو تو اُس وقت حرام کھانا جائز نہ ہو گا کیونکہ اب کھانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔
ــــــ کسی سے حلال کھانے کے لینے کا کوئی انتظام نہ ہو:
یعنی کسی سے حلال کھانا خرید کر یا مانگ کر یا کم از کم زبردستی چھین کر بھی نہ لیا جاسکتا ہو ۔پس
اگر خریدا جاسکتا ہو اگرچہ ثمن غالی اور ثمن ِ مؤجل کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو
اگر کسی سے سوال کر کے لیا جاسکتا ہو۔
اگر کوئی نہ دے تو زبردستی لینے کی طاقت ہو ۔
تو اِن تینوں صورتوں میں حرام کھانا جائز نہ ہوگا ، اِس لئے کہ وہ حلال لینے پر قادر ہے ، پس مضطر نہ ہوگا ۔(الموسوعة الفقهية الكويتية:5/160)
(2)ــــ دوسری بحث :کتنی مقدار کھائی جاسکتی ہے ؟
اِس سے مرا د ”سدِّ رمق “ہے ، یعنی اتنی مقدار کھانا جو جان بچانے کے لئے کافی ہو ، پیٹ بھر کر کھانا یا قدرِ ضرورت سے زائد کھانا اس صورت میں بھی حرام ہے ۔(معارف القرآن :1/425)
اِس میں اختلاف ہے کہ اضطرار کی حالت میں پیٹ بھر کر سیر ہوکر کھایا جاسکتا ہے یا نہیں :
امام مالک : سیر ہوکر کھایا جاسکتا ہے ۔
ائمہ ثلاثہ سدِّ رمق کے لئے جائز ہے ،سیر ہوکر نہیں کھایا جاسکتا ۔(بذل المجہود :16/143)
(3)ــــتیسری بحث :کیا مضطر کے لئے کھانا واجب ہے ؟
حالتِ اضطرار میں مضطر کے لئے کھانا واجب ہے ، اگر نہیں کھائے اور اسی حالت میں مرجائے تو گناہ گار ہوگا ۔