قِران بین التمرین کا حکم :
اہلِ ظاہر : مطلقاً حرام ہے ۔
جمہور ائمہ : اِس کے اندر تفصیل ہے :
وہ کھانا قارِن کا ہوگا یا تمام کھانے والوں کا مشترکہ ہوگا یا کھانےوالوں میں سے کسی کا ہوگا یا اُن کھانے والوں کے علاوہ کسی اور کا ہوگا ۔ پس چار صورتیں ہوگئیں ، اُن کا حکم یہ ہے :
(1)کھانا اُس قِران کرنے والے کا خود ہو :کسی سے اجازت لینا ضروری نہیں ۔
(2)کھانا اُن سب کے درمیان مشترکہ ہو :سب سے اجازت(صراحۃً یا دلالۃً) لینا ضروری ہے ۔
(3)کھانا اُن کھانے والوں میں سے کسی کا ہو :اُس( مالک )سے اجازت لینا ضروری ہے ۔
(4)کھانا اُن سب کے علاوہ کسی اور کا ہو :اُس غیر شخص (مالک)سے اجازت لینا ضروری ہے ۔(ماخوذ از تحفۃ الاحوذی :5/435۔و ۔الکوکب الدری :3/16)
خلاصہ :مختصر یہ کہ اگر کھانا قِران کرنے والے کا خود اپنی ملکیت کا ہے تو اجازت لینا مستحب ہے ۔
اور اگر کسی اور کا ہے تو صراحۃً یا دلالۃً اجازت لینا ضروری ہے ۔
اجتماعی طور پر کھانے کے چند آداب :
(1)علم یا فضل کے اعتبار سے بڑے کو کھانا شروع کرنے کا موقع دینا چاہیئے ۔
(2)کھاتے ہوئے بالکل خاموش نہیں رہنا چاہیئے ۔
(3)کھاتے ہوئے اپنے ساتھی کے ساتھ ایثار کا معاملہ کرنا چاہیئے ۔
(4)دوسرے کے کھانے کو تکنا نہیں چاہیئے ، کیونکہ اِس سے وہ شرم محسوس کر کے کھانے سے کترائے گا ۔
(5)اجتماعی طور پر کھاتے ہوئے ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیئے جس سے لوگ گھن محسوس کریں ۔
(6)اگر پہلے فارغ بھی ہوجائیں تو ساتھی کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا چاہیئے ۔(احیاء علوم الدین :2/7)