وَبَصَّرَ مِنَ الْعَمَى، وَفَضَّلَ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَهُ تَفْضِيلًا، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ(عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی :1/422)ہاتھ دھوتے ہوئے یہ پڑھنی چاہیئے ۔
کسی کے یہاں کھانا کھایا ہو تو یہ دعائیں پڑھنی چاہیئے :
(1)أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ(ابو داؤد :2/)
(2)اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِيمَا رَزَقْتَهُمْ، وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ(عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی :1/427)
٭الأکل مع المجذوم: جذامی کے ساتھ کھانا٭
جذامی کے ساتھ کھانا جائز ہے ، نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے ، اور جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے ، نہ کسی کے ساتھ کھاکر انسان بیمار ہوتا ہے اور نہ کسی کے ساتھ نہ کھاکر انسان صحت مند ہوتا ہے ۔
تعارض :(1)فِرَّ مِنَ المَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الأَسَدِ(بخاری ،رقم:5707)
(2)كُلْ بِسْمِ اللَّهِ، ثِقَةً بِاللَّهِ، وَتَوَكُّلًا عَلَيْهِ(ترمذی :2/)
رفعِ تعارض :
(1)پہلی حدیث یعنی حدیثِ فرار منسوخ ہے ۔(عمدۃ القاری:21/247)
(2)حدیثِ فرار احتیاط و استحباب پر محمول ہے ، جبکہ حدیث أکل میں بیان جواز ہے ۔(تحفۃ الاحوذی :5/439)
(3)اصل مسئلہ یہی ہے کہ کہ بیماریاں از خود متعدی نہیں ہوتیں ، لیکن پھر بھی حدیث ِ فرار میں بھاگنے کا حکم اِس لئے دیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے بیماری پیدا ہوگئی تو عقیدہ فاسد ہوسکتا ہے اور یہ بات دل میں آسکتی ہے کہ مجذوم کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے اور کھانے سے بیماری لگ گئی ہے ۔پس عقیدے کی حفاظت کی غرض سے دور رہنے کا حکم دیا ۔(مرقاۃ المفاتیح :4/1711)