کرنا اور أمعاء سے مراد دنیا کے اسباب ہیں ۔اِس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مؤمن بہت زیادہ دنیا جمع کرنے میں نہیں لگتا ، جبکہ کافر کا یہی مشغلہ ہوتا ہے ۔(تحفۃ الاحوذی :5/441)
(5)یہ اخبار بمعنی انشاء کے ہے ، یعنی اِس میں خبر نہیں دی جارہی بلکہ مؤمن کو ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ کم کھائے اور کافروں کے طرز کو نہ اپنائے جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاَلَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الأنعام (سورۃ محمد :12) (تحفۃ الاحوذی :5/441)
(6)کھانے کے اندر سات طرح کی شہوات ہوتی ہیں :(1)شہوتِ طبعیہ ۔(2)شہوتِ نفسانیہ۔(3)شہوتِ عینیہ۔ (4) شہوتِ فمیہ ۔ (5) شہوتِ اُذُنیہ ۔ (6) شہوتِ انفیہ ۔(7) شہوتِ جُوعیہ ۔ اِن ساتوں میں سے صرف ایک(شہوت ِ جُوعیہ ) شہوت ضروریہ ہے جس کی کھانے میں اصل ضرورت ہوتی ہے ،اور مؤمن اُسی سے کھاتا ہے ، جبکہ کافر تمام شہوتوں کی تسکین کے لئے کھاتا ہے ۔(تحفۃ الاحوذی :5/443)
٭ کَرَاہیَۃ الأکل مُتّکئاً: ٹیک لگا کر کھانا٭
ٹیک لگاکر کھانے حکم :
(1)ممنوع مطلقاً: اگر تکبر کی غرض سے ہو ۔
(2)جائز بلا کراہت :اگر کسی عذر کی وجہ سے ہو ۔
(3)خلافِ اولیٰ : اگر راحت حاصل کرنے یا کثرتِ ،أکل کے لئے ہو ۔(تکملہ فتح الملہم :4/48)
اتِّکاءِ یعنی ٹیک لگانے کی صورتیں :
(1)ـــدائیں بائیں جُھک کر ہاتھ ٹیک کر کھانا۔(زاد المعاد :1/143)
(2)ـــگدے وغیرہ پر اطمینان سےجم کر بیٹھ کر کھانا۔(معالم السنن :4/243)