برتن کے کس حصے سے کھاجائے ؟
اِس بارے میں ارشادات ِ نبویہ کی روشنی میں جو آداب ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :
(1)اپنے سامنے سے کھانا۔ كُلْ مِمَّا يَلِيكَ(ترمذی :2/7)
(2)برتن کے درمیان سے نہ کھانا۔ البَرَكَةُ تَنْزِلُ وَسَطَ الطَّعَامِ، فَكُلُوا مِنْ حَافَتَيْهِ، وَلَا تَأْكُلُوا مِنْ وَسَطِهِ(ترمذی :2/3)
(3)کسی کے سامنے سے نہ لینا ۔ وَلَا يَتَنَاوَلْ مِنْ بَيْنِ يَدَيْ جَلِيسِهِ(ابن ماجہ ، رقم: 3273)
(4)ایک جگہ سے کھانا ۔ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ، فَإِنَّهُ طَعَامٌ وَاحِدٌ(ابن ماجہ ، رقم: 3274)
(5)کھانا مختلف طرح کا ہو تو اِدھر اُدھر سے کھایا جاسکتا ہے ۔ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ، فَإِنَّهُ غَيْرُ لَوْنٍ وَاحِدٍ(ابن ماجہ ، رقم: 3274)
٭أَكل الثُّومِ وَالْبَصَل لہسن اور پیا ز کھاکر مسجد جانے کی کراہیت٭
اِس میں چند باتیں قابلِ وضاحت ہیں :
(1)ــــپہلی بات : کراہیت کس چیز میں ہے ؟
یہ کراہیت لہسن اور پیاز کھانے کی نہیں ، بلکہ کھاکر مسجد جانے کی ہے ، کیونکہ لہسن اور پیاز بالاتفاق حلال ہیں ، ان کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ،کما فی الحدیث : الثُّومُ مِنْ طَيِّبَاتِ الرِّزْقِ(ترمذی :2/) پس بعض اہلِ ظاہر کا اِس حدیث سے ”ثوم اور بصل“ کی حرمت کو ثابت کرنا کسی طور درست نہیں ۔(تحفۃ الاحوذی :5/428)