واضح رہے کہ یہ حکم اضطرار کی حالت میں حرام دوائی کے استعمال کرنے کا نہیں ، کیونکہ اُس میں شفاء یقینی نہیں ، پس تداوی بالمحرّم بھی ضروری نہ ہوگا ۔جبکہ مضطر کے لئے ایک دو لقمہ کا کھالینا عادۃًاُس کی جان کے بچ جانے کا یقینی ذریعہ ہے ، اِس لئے نہ کھا کر ہلاک ہونے کی صورت میں گناہ گار ہوگا اور علاج نہ کرنے کی وجہ سے اگر مر گیا تو گناہ گار نہ ہوگا ۔(الفقہ الاسلامی :4/2602)
فقہاء کا اختلاف :
امام ابویوسف :مضطر کے لئے کھانا مباح ہے ، پس نہ کھاکر مرنے سے گناہ گار نہ ہوگا۔
جمہور ائمہ کرام :مضطر کے لئےکھانا واجب ہے ، پس نہ کھاکر مرنے سے گناہ گار ہوگا۔(بذل المجہود :16/143)(الموسوعة الفقهية الكويتية:5/158)
(4)ــــچوتھی بحث :کیا یہ حکم سفر و حضر میں یکساں ہے ؟
یعنی مضطر اور مجبور شخص کے لئے حرام کھانے کی رخصت سفر اور حضر میں ایک جیسی ہےیا اِس میں کوئی فرق ہے ، اِس بارے میں اختلاف ہے :
امام احمد بن حنبل :ایک قول کے مطابق یہ رخصت سفر میں ہے ، حضر میں نہیں ۔
ائمہ ثلاثہ :یہ رخصت سفر اور حضر دونوں میں عام ہے ۔(بذل المجہود :16/143)
(5)ــــپانچویں بحث :اِس رخصت میں معصیت اور غیر معصیت کا سفر یکساں ہے ۔
معصیت کے اعتبار سے سفر کی دو قسمیں کی گئی ہیں :
وہ سفر جو اپنی ذات میں معصیت اور گناہ ہو ، جیسے :عبدِ آبق (بھگوڑے غلام ) کا سفر ، امرأۃِ ناشزہ (شوہر کی نافرمان عورت )کاسفر ، قطاع الطریق (ڈاکہ زنی )کے لئے سفر ۔اس کو” معصیت بالسفر “ کہا جاتا ہے ۔
وہ سفر جو اپنی ذات میں تو جائز ہو لیکن دورانِ سفر گناہ کیا جائے ، جیسے کوئی جائز سفر کر رہا ہو اور دورانِ سفر شراب پیئے ، زنا کرےیا کوئی اور گناہ کا ارتکاب کرے ۔اس کو” معصیت فی السفر “ کہا جاتا ہے ۔