حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
گر سگی کردیم اے شیر آفریں شیر را مگمار بر ما زیں کمیں اے خدا! اگرچہ ہم نے کتاپن کیا، نفس کی بات مانی اور آپ کی نافرمانی سے حرام لذت کی درآمدات کیں لیکن آپ شیر پیدا کرنے والے ہیں، ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کمین گاہ میں آپ اپنے شیروں کو ہمارے کتے پن پر، ہمارے نفس پر مسلط نہ فرمائیے، کیا مطلب؟ کہ انتقام نہ لیجیے،کیوں کہ جب خدائے تعالیٰ انتقام لیتا ہے تو ان اگر مگر والوں کو پتا چل جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ کیا کریں صاحب! گناہوں کی پرانی عادت ہے، چھوٹتی نہیں ہے۔ ارے! ہمت سے کام لو، پرانی عادت تو ہے لیکن جب اللہ پکڑے گا تو پرانی عادت اس وقت فوراً چھوٹ جائے گی۔ اگر کوئی بدنظری کا پچاس سال سے مریض ہے اور خدائے تعالیٰ اس کو بلڈ کینسر یا کینسر میں مبتلا کردیں یا اس کے گردے خراب ہوجائیں اور اس وقت اس کا سارا خون نکالا جائے اور باہر مشین میں فلٹر کرکے پھر چڑھایا جائے اور ڈاکٹر کہہ دیں کہ اب تُو نہیں بچے گا اس وقت اس سے پوچھو اب معشوق لاؤں یا صحت چاہیے؟ اللہ تعالیٰ کے اس انتقام کا انتظار مت کرو، جلدی سے توبہ کرکے اپنے مالک کو راضی کرلو، یہ احمقانہ روش ہے کہ ایسے صاحبِ قدرت کے غضب کو، قہر کو ہم اپنے اوپر حلال کریں اور نفسِ خبیث دشمن کو خوش کریں۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایسے موقع پر ایک شعر کہا کرتے تھے ؎ بقولِ دشمناں پیمانِ دوست بشکستی بقولِ دشمناں، دشمن کے کہنے سے یعنی نفس و شیطان کے کہنے سے تم نے اللہ تعالیٰ کے، اپنے مولیٰ کے عہدوپیمان کو توڑ دیا ؎ ببیں کہ از کہ بریدی و با کہ پیوستی اے ظالم! بے وقوف! گدھے! کمینے! بے غیرت شخص! ذرا سوچ کہ تو نے کس سے توڑا اور کس سے جوڑا؟ اپنے پیدا کرنے والے سے توڑا، اپنے محسن اور پالنے والے سے رشتہ توڑا اور تونے نفس و شیطان سے رشتہ جوڑ کر، ان کو خوش کرکے حرام لذت سے لعنت وپھٹکار اپنے چہرے پر، آنکھوں پر، دل پر برسالی۔