Deobandi Books

قرب الہی کی منزلیں

ہم نوٹ :

13 - 58
پر رونما ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں ایک تو گاؤں میں کتے بہت بھونکتے ہیں،کیوں کہ وہاں بجلی نہیں ہوتی، زمین پرچاند کی پوری روشنی پڑتی ہے تو رات بھر کتے بہت بھونکتے ہیں۔ ایسے ہی جن کی کتے والی خصلتیں ہوتی ہیں ان کے نفس میں بھی چاند جیسےحسینوں کو دیکھ کر بھونکنے کی عادت ہوتی ہے۔ اور جو اہل اللہ ہیں وہ نظر بچا کر اپنے قلب و جا ن کو اللہ سے چپکائے رکھتے ہیں۔ بتاؤ! خدا سے چپکنے والے زیادہ مزے میں رہیں گے یا مرنے والوں سے لپٹنے والے؟ مُردوں سے چپٹنے والا زیادہ باغ و بہار رہے گا یا خدائے تعالیٰ سے، جو خالق و مالک ہے، اس کی آغوشِ رحمت میں بیٹھنے والا زیادہ مزے میں رہے گا، لہٰذا ایسے زمین والے چاندوں کو ہرگز مت دیکھو۔
جب چودہ تاریخ  کا چاند ہوتا ہے تو اس کا دوسرا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ سمندر میں جواربھاٹا آجاتا ہے، سمندر میں طغیانی آجاتی ہے، وہ کئی فرلانگ آگے بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح چاند جیسے چہروں کو دیکھنے سے دل کے سمندر میں طوفان آجائے گا، اسی لیے شریعت نے بدنظری کو حرام قرار دیا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو بدنظری کرتا ہے، حسینوں کو تاک جھانک کر تا ہے، لڑکا ہو یا لڑکی، آنکھوں کا زِنا کرتا ہے، یہ آنکھوں کا زِنا کار ہے۔ اب برکت کے لیے الفاظِ نبوّت بھی پیش کرتا ہوں،تاکہ نورِ نبوّت بواسطہ الفاظِ نبوّت ہمارے دلوں میں اتر جائے:
 زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ وَ زِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ6؎
آنکھوں سے حسینوں کو دیکھنا، نظر بازی کرنا یہ آنکھوں کا زِنا ہے،یہ آپ کو گندے مقامات تک پہنچا دیتا ہے۔ وَ زِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ حسینوں سے گپ شپ لگانا، لڑکا ہو یا لڑکی، چچی ہو یا ممانی، بھابھی ہویا سالی، جن سے شریعت میں پردہ واجب ہے اُن کو دیکھنا، اُن کو مرنڈا پلانا، اُن سے مزے لے لے کر باتیں کرنا اِن سب کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ زِنَااللِّسَانِ الْمَنْطِقُ نامحرموں سے گفتگو کرنا زبان کا زِنا ہے۔ اچھے اچھے باریش حج و عمرہ کرنے والے ذرا کوئی نمکین شکل پا جاتے ہیں، آہ! پھر وہ اﷲ تعالیٰ کو کہاں یاد رکھتے ہیں؟ پھر ان ظالموں کو بیت اللہ، روضۂ مبارک سب بھول جاتا ہے۔ مرنے والوں پر مرنے والو! کب تک اپنی زندگی برباد کرو گے؟ خواجہ صاحب کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔ فرماتے ہیں؎
_____________________________________________
6؎   صحیح البخاری:978/2 (6652)، باب قولہ:وحرام علی قریۃ اھلکناھا، المکتبۃ المظہریۃ
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 قرآنِ پاک سے تصوف کا ثبوت 7 1
3 حیا کی تعریف 8 1
4 اﷲ تک پہنچنے کا مختصر راستہ 9 1
5 مقصدِ حیات 10 1
6 شیطان دھوکے باز تاجر ہے 11 1
7 روحانی بلڈ پریشر 12 1
8 دل کے سمندر میں طغیانی کب آتی ہے؟ 12 1
9 کلمہ کی بنیاد کیا ہے؟ 14 1
10 عشقِ مجازی دونوں جہاں کی بربادی ہے 14 1
11 جنت میں مسلمان عورتوں کی شانِ حُسن 15 1
12 عطائے مولیٰ کی قدر و قیمت 16 1
13 بیویوں سے حسنِ سلوک 17 1
14 ولی اﷲ بننے کا طریقہ 20 1
15 عشقِ مجازی کی بربادیاں 21 1
16 مجدِّدِ ملّت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا تقویٰ 23 1
17 نفس پر کبھی بھروسہ نہ کریں 23 1
18 خواجہ صاحب کی فنائیت 24 1
19 علامتِ ولایت 25 1
20 خدا کے عاشقوں کا عالم 26 1
21 زندگی ایک ہی دفعہ ملی ہے 27 1
22 اﷲ تعالیٰ سے کیسی محبت کریں؟ 27 1
23 بے لذت ذکر سے بھی نسبت عطا ہوجاتی ہے 28 1
24 ذکر میں اعتدال ضروری ہے 29 1
25 اصلاح زندہ شیخ سے ہوتی ہے 30 1
26 اہل اﷲ کے روحانی مراتب 31 1
27 اللہ کی محبت کا درد کب ملتا ہے؟ 32 1
28 عاشقانہ ذکر کا ثبوت 34 1
29 قرآنِ پاک سے ذکرِ اسمِ ذات کا ثبوت 35 1
30 محبت انگیز ذکر کا نفع 36 1
31 حدیثِ پاک سے ذکرِ اسمِ ذات کا ثبوت 37 1
32 تبتل کی حقیقت 38 1
33 قرآنِ پاک سے ذکرِ نفی اثبات کا ثبوت 41 1
34 لَااِلٰہَ اِلَّا اللہْ کی فضیلت 42 1
35 تصوّف کے مسئلۂ توکّل کا ثبوت 42 1
36 نماز میں خشوع کی تعریف 43 1
37 توکّل کا طریقہ 44 1
38 دشمنوں کی ایذا رسانی پر صبر کی تلقین 45 1
39 آیت یَضِیْقُ صَدْرُکَ … پر ایک الہامی علمِ عظیم 46 1
40 سلوک کے آخری اسباق ابتدا میں کیوں نازل کیے گئے؟ 50 1
Flag Counter