انوار حرم |
ہم نوٹ : |
|
یَفْعَلُوْنَ بھی تو فرماسکتے تھے لیکن نظربازی کرکے حرام لذّت لینے والا کون سی صنعت بناتا ہے؟یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا تو میں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اے اللہ! یہاں میرے پاس کوئی تفسیر نہیں ہے، مسافر ہوں اپنی رحمت سے اس کا مفہوم مجھے عطا فرمائیے تو میرے قلب میں آیا کہ جو بدنظری کے مریض ہیں، نظربازی کے وقت ان کے چہرے کے عجیب عجیب ڈیزائن بنتے ہیں۔ جسے علامہ آلوسی نے فرمایا کہ جب کتّا پاگل ہوجاتا ہے تو ایک سمت کو نہیں چلتا لَایَقْصُدُ فِی الْمَشْیِِ سِمْتًا وَاحِدًا اس طرح جو اس مرض کے شکار ہیں وہ بھی مختلف سمتوں میں نظر مارتے ہیں، کبھی اوپر، کبھی نیچے، کبھی دائیں، کبھی بائیں دیکھتے رہتے ہیں کہ معلوم نہیں کدھر سے کوئی نمکین شکل نظر آجائے۔ یہ ایک ڈیزائن اور ایک صنعت بنی۔ کبھی اس منظور کے خیالوں میں گم ہیں تو ایک دوسری ڈیزائن بن گئی، اس سے دل ہی دل میں باتیں کرنا چاہتے ہیں، اس کو ہاتھوں سے چھونا چاہتے ہیں، ہونٹوں سے اس کو چومنا چاہتے ہیں، اسی طرح پاؤں سے اس کے گھر کا چکر لگانا چاہتے ہیں، اور ان اعمال اور مختلف ڈیزائن کو اللہ تعالیٰ نے یَصْنَعُوْنَ سےتعبیر فرمایا۔ جب میں نے کراچی پہنچ کر تفسیر روح المعانی دیکھی تو مجھے بے انتہا خوشی ہوئی کہ علامہ آلوسی نے وہی معانی بیان کیے جو اللہ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمائے تھے۔ فرمایا کہ اِنَّ اللہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ کے معنیٰ ہیں اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِاِجَالَۃِ النَّظَرِ ، جَالَ یَجُوْلُ معنیٰ گھومنا، اَجَالَ یُجِیْلُ معنیٰ گھمانا۔ تو جب تم نظر کو گھما گھماکے اِدھر اُدھر دیکھتے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی تم کو دیکھ رہا ہے کہ یہ نالائق آنکھوں کو کہاں استعمال کررہا ہے، میں اس کو دیکھتا ہوں اور یہ کہیں اور دیکھ رہا ہے؎ جو کرتا ہے تو چھپ کے اہلِ جہاں سے کوئی دیکھتا ہے تجھے آسماں سے دوسری تفسیر ہے: اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِاسْتِعْمَالِ سَائِرِ الْحَوَاسِّ جب تم بدنظری کرتے ہو تو تمہارے حواسِ خمسہ غیراللہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ کان سے اس کی گفتگو سننے کو دل چاہتا ہے، زبان سے اس کو چاٹنے کو دل چاہتا ہے، ناک سے اس کو سونگھنے کو دل چاہتا ہے، ہاتھ سے اس کو چھونے کو دل چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس ڈیزائن سے بھی باخبر ہے۔ تیسری تفسیر ہے اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِتَحْرِیْکِ الْجَوَارِحِ اور تمہارے ہاتھ پیر بھی اس کے چکر میں آجاتے