کردی۔ تا آں سال کہ بہرِ غزو رفتہ بود بر قلعۂ گبران دستِ قدرت نمی یافت، عبداللہ بن مبارک شبے بدآں اندیشہ بخواب رفتہ بود، رسول اللہﷺ را بخواب دید۔ رسول اللہﷺ فرمود کہ اے عبداللہ! درچہ اندیشۂ؟ گفت: یا رسول اللہ! بریں قلعہ گبراں قادر نمی شوم، دریں اندیشہ ام، رسول اللہﷺ فرمود کہ: کجائی از طہارت، یعنی طہارت بامسواک کن۔ عبداللہ بن مبارک از خواب بیدار شد وطہارت بامسواک ساختہ، وغازیاں را نیز فرمود تا طہارت بامسواک ساختند۔ دید باناں از بالا قلعہ نگاہ کردند آں حالت را بدیدند۔ خدائے عز وجل ہیبتے در دلِ ایشاں انداخت، فردِ رفتند وبا میرانِ قلعہ گفتند کہ ایں جماعت کہ آمدہ اند آدم خورند کہ دندانہا تیز می کنند، تا اگر برما ظفر یابند مارا از نہاد بر آرند ومارا بخورند، خداوند عزوجل ہیبتے بدل ایشاں اندر افگند۔قاصد بیروں فرستادندکہ شما مال میخواہد یا جانہا؟ عبداللہ بن مبارک
بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن مبارک مروزی ؒ نے اپنی زندگی کے تین حصے کیے تھے۔ ایک سال حج کو جاتے اور ایک سال غزوہ میں تشریف لے جاتے اور ایک سال علم کا درس دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک غزوہ میں تشریف لے گئے، وہاں کفار کا قلعہ فتح نہیں ہوا تو آپ رات کو اسی فکر میں سوگئے کہ خواب میں دیکھا کہ حضور اقدس ﷺ فرما رہے ہیں: اے عبداللہ! کس فکر میں ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہ! کفار کے اس قلعہ پر قادر نہیں ہوتا ہوں اس فکر میں ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وضو مسواک کے ساتھ کیا کر۔ عبداللہ بن مبارک ؒ خواب سے بیدار ہوئے۔ مسواک کے ساتھ وضو کیا اور غازیوں کو بھی حکم دیا، انھوںنے بھی مسواک کے ساتھ وضو کی۔ قلعہ کی نگہبانوں نے قلعہ کے اوپر سے غازیوں کو مسواک کرتے ہوئے دیکھا اور خدائے تعالیٰ نے ایک خوف ان کے دل میں ڈالا۔ وہ نیچے گئے اور قلعہ کے سرداروں سے کہا کہ یہ فوج جو آئی ہے یہ لوگ آدم خور معلوم ہوتے ہیں۔ دانتوں کو تیز کررہے ہیں تاکہ اگر ہم پر فتح پائیں تو ہمیں کھائیں۔ خدائے تعالیٰ
ؒ گفت: نہ مالہا ونہ جانہا۔ ہمہ اسلام آرید تا اخلاص یابید ہمہ اسلام آوردند ببرکاتِ اقامت آں سنت را۔1
نے یہ دہشت ان کے دل میں بٹھادی اور مسلمانوں کے پاس قاصد بھیجا کہ تم مال چاہتے ہو یا جان؟ عبداللہ بن مبارک ؒ نے فرمایا: نہ مال چاہتے ہیں نہ جان، تم سب اسلام قبول کرلو
تاکہ چھٹکارہ پاؤ۔ اس سنت کے ادا کرنے کی برکت سے وہ سب مسلمان ہوگئے۔
مسواک کے آداب