کرنے والا شخص دنیا میں (گناہوں سے) پاک صاف ہو کر جاتا ہے اور موت کا فرشتہ روح نکالنے کے لیے اس کے پاس اُس صورت میں آتا ہے جس صورت میں اولیا کے پاس آتا ہے، بعض عبارات میں ہے کہ جس صورت میں انبیا کے پاس آتا ہے اسی صورت میں آتا ہے۔ مسواک کرنے والا دنیا سے اس وقت تک نہیں جاتا جب
تک کہ وہ حضور ﷺ کی حوض سے شراب نہ پی لے اور وہ رحیقِ مختوم ہے۔ (اور ان سب فوائد سے) بڑھ کر یہ ہے کہ اس میں حق تعالیٰ کی رضا ہے اور منہ کی صفائی ہے۔
علامہ زبیدی ؒ نے بھی شرح احیاء میں مسواک کے فوائد کو نقل کیا ہے اور بعض ۔ُعلما کی نظم میں بھی نقل کی ہے۔ اکثر فوائد وہی ہیں جو ہم نے طحطاوی سے نقل کیے ہیں، البتہ ایک فائدہ نیا ذکر کیا ہے کہ مسواک کرنے سے منی زیادہ پیدا ہوتی ہے۔
چند مسئلے
مسئلہ۱۔ حنفیہ کے نزدیک روزہ کی حالت میں زوال سے پہلے اور زوال کے بعد مسواک کا استعمال درست ہے، خواہ مسواک خشک ہو یا ۔َتر۔
مسئلہ۲۔ مسواک سے مارنا درست ہے۔1 حضور اقدس ﷺ نے ایک بار اپنی باندھی کے بارے میں (جب کہ) اس نے تعمیل ارشاد میں تاخیر کی اور کھیل میں لگ گئی تھی فرمایا تھا کہ اگر قیامت کے دن بدلہ کا خوف نہ ہوتا تو تجھے اس مسواک کے ذریعہ ضرور تکلیف پہنچاتا۔ اس سے بھی اس کا جواز مفہوم ہوتا ہے۔
مسئلہ۳۔ کسی کی مسواک بلا اجازت استعمال کرنا مکروہ ہے۔
مسئلہ۴۔ احرام کی حالت میں مسواک کرنا جائز ہے ۔2
مسئلہ۵۔ جس شخص کو مسواک کرنے سے قے آنے کا خوف ہو تو وہ مسواک ترک کرسکتا ہے۔3
مسئلہ۶۔ نابالغ بچوں کو بھی اس کا استعمال کرانا چاہیے تاکہ ان کو بھی عادت ہو۔4
مسئلہ۷۔ غسل میں بھی مسواک کرنا مسنون ہے۔
مسئلہ۸۔ دانتوں کو لوہے یا ریتی سے صاف کرنا مکروہ ہے اس سے دانت کمزور ہو کر جلد ٹوٹ جاتے ہیں۔1
مسئلہ۹۔ حرم شریف کے پیلو سے مسواک بنانا جائز نہیں۔2
طالبِ دعا
اطہر حسین غفرلہٗ مظاہری
۲۷؍ صفر المظفر ۱۳۷۸ھ
(تاریخ کتابت عکسی ۲۶؍ جنوری ۱۹۸۴ء جمعرات)