سامنا تھا اس خیال سے حضور اقدس ﷺ نے مسواک کوامت پر فرض نہیں کیا، اگرچہ آپ کے نزدیک اس کے فضائل اور منافع کا تقاضا یہی تھا کہ اس کو فرض کیا جائے تاکہ امت کا ہر فرد ان فضائل ومنافع کو حاصل کرسکے۔
مگر انتہائی درجہ کی شفقت ہے کہ امت کی سہولت اور آسانی کے پیشِ نظر اس کو فرض نہیں کیا تاکہ مسواک نہ کرنے والا گناہ گار نہ ہو۔ اور اس کی ترغیب بھی مختلف طریقوں سے دی۔ اور اس کو سنت قرار دیا تاکہ اس کے فضائل اور منافع سے محرومی بھی نہ ہو۔
وصیتِ جبرئیل ؑ:
عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَؓ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: مَا زَالَ جِبْرِیْلُ ؑ یُوْصِیْنِيْ بِالسِّوَاکِ، حَتّٰی خِفْتُ عَلٰی أَضْرَاسِيْ۔ رواہ الطبراني بـإسناد وفیہ لین، ولبیقي وابن ماجۃ من حدیث أبي أمامۃ۔
حضرت اُمّ ۔َسلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور ؑ نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل ؑ مجھے ہمیشہ مسواک کی وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے اپنی ڈاڑھوں پر (گرجانے کا) خوف ہوگیا۔
احتمالِ وحی:
عن ابن عباسؓ عَنِ النَّبِيِّﷺ قَالَ: لَقَدْ اُمِرْتُ بِالسِّوَاکِ، حَتّٰی ظَنَنْتُ أَنْ یَنْزِلَ فِیْہِ قُرْآنٌ أَوْ وَحْيٌ۔1
حضرت ابنِ عباس ؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے (اتنی کثرت سے) مسواک کا حکم کیا گیا کہ مجھے اس کے بارے میں
وحی آنے کا خیال ہونے لگا۔یعنی میںنے سمجھا کہ قرآن میں اس کا کوئی حکم نازل ہوگا۔
فائدہ: جبرئیل ؑ کا بار بار اس کی وصیت وتاکید فرمانا، حضور اقدس ﷺ کا اس کے بارے میں قرآن یا وحی کا گمان کرنا، مسواک کی کثرت سے اپنی ڈاڑھوں کے گر جانے کا خوف فرمانا، یہ سب امور مسواک کی اہمیت وتاکید کو بخوبی ثابت کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسواک کا استعمال نہایت ضروری ہے اور اس کا ترک نقصان وخسارہ سے خالی نہیں۔
زنا سے حفاظت:
اِغْسِلُوْا ثِیَابَکُمْ، وَخُذُوْا مِنْ شُعُوْرِکُمْ، وَاسْتَاکُوْا، وَتَزَیَّنُوْا؛ فَإِنَّ بَنِيْ إِسْرَائِیْلَ لَمْ یَکُوْنُوْا یَفْعَلُوْنَ ذٰلِکَ فَزَنَتْ نِسَاؤُھُمْ۔ (جامع صغیر)