ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ آپﷺ مسواک پسند فرماتے ہیں اس لیے میں نے دریافت کیا کہ آپ کے لیے مسواک لوں؟ آپ ﷺ نے سر کے اشارہ سے فرمایا: ہاں! چناںچہ میں نے عبدالرحمن سے مسواک لے کر آپ ﷺ کو دی۔ آپ ﷺ نے استعمال کرنا چاہا، لیکن مسواک سخت تھی، اس
اس لیے آپ استعمال نہ کرسکے، میں نے کہا: نرم کردوں؟ آپ ﷺ نے سر کے اشارہ سے فرمایا: ہاں! چناںچہ میں نے (دانتوں سے چبا کر) نرم کرکے حضور ﷺ کو دی، آپ ﷺ نے اس کو اپنے دانتوں پر پھیرنا شروع کیا، آپ کے سامنے ایک برتن تھا، جس میں پانی تھا۔ آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ پانی میں ڈالتے اور چہرۂ انور پر پھیر لیتے۔اور فرماتے لا الہ الا اللہ بے شک موت کے لیے سختیاں ہیں، پھر بطور دعا کے ہاتھ اُٹھائے اور کہنا شروع کیا: اے اللہ! مجھے رفیق اعلیٰ(انبیا) میں شامل کر۔ اور اسی طرح کہتے رہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کی روح قبض کی گئی۔ اور آپ ﷺ کے دونوں ہاتھ نیچے گر پڑے۔
فائدہ: معلوم ہوا ہے کہ مرنے سے پہلے مسواک اور طہارت ونظافت حاصل کرنا چاہیے۔ فقہا نے لکھا ہے کہ جس شخص کو اپنی موت کا علم ہوجائے اس کو موئے زیر ناف وغیرہ کا صاف کرنا مستحب ہے۔ حضرت خبیب ؓ کے واقعہ میں ہے کہ جب کفار نے آپ کے قتل کا ارادہ کیا تو آپ نے اُسترہ لے کر بال وغیرہ صاف کیے اس کا منشاء بھی یہی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ مرنے کے بعد چوںکہ حق تعالیٰ کی خدمت میں حاضری ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نظافت اور پاکیزگی کو پسند فرماتے ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:
إِنَّ اللّٰہَ نَظِیْفٌ یُحِبُّ النَّظَافَۃَ۔
یعنی اللہ پاک صاف ہے پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔
اس لیے مرنے سے پہلے مسواک اور جو امور بھی صفائی کے ہیں اختیار کرنے چاہییں۔ ’’شرح الصدور‘‘ ص:۲۲ میں بعض۔ُعلما سے یہ بھی منقول کیا ہے کہ مسواک کرنے سے روح بآسانی نکل جاتی ہے۔
جمعہ کے دن مسواک:
۱۔ عَنِ ابْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِﷺ قَالَ فِيْ جُمُعَۃٍ مِنَ الْجُمَعِ: یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ إِنَّ ہَذَا یَوْمٌ جَعَلَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی عِیْدًا لِلْمُسْلِمِیْنَ، فَاغْتَسِلُوْا، وَمَنْ کَانَ عِنْدَہُ طِیْبٌ فَلاَ یَضُرُّہُ أَنْ یَّمُسَّ مِنْہُ، وَعَلَیْکُمْ بِالسِّوَاکِ۔1