وَأَوَامِرِ رَسُوْلِہٖ، وَلَا سَیِّمَاوَقَدْ أَکَّدَ النَّبِيُّﷺ فِيْ ذٰلِکَ، وَلَمْ یَکْتَفِ بِمُجَرَّدِ الْأَمْرِ
’’لواقح‘‘ میں علامہ شعرانی ؒ فرماتے ہیں کہ ہم سے ایک عام عہد حضور ﷺ کی طرف سے یہ لیا گیا ہے کہ ہم ہر وضو کے وقت ہمیشہ مسواک کیا کریں۔ اور اگر ہم سے مسواک کھو جاتی ہو تو دھاگے میں باندھ کر اپنی گردن میں یا اپنی پگڑی میں اگر پگڑی عرقیہ پر باندھی ہو لٹکالیں، اور اگر قلنسوہ پر باندھی ہو تو بائیں کان کی جانب پگڑی میں لگا لیں۔ اور یہ ایک ایسا عہد ہے جس میں عام طورپر تجار، رؤسا، خدام سب ہی کوتاہی کرتے ہیں، چناںچہ ان کے منہ کی بو گندہ اور پلید ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے عوام کو تو چھوڑیے اللہ اور فرشتوں اور نیک مؤمنین کی تعظیم میں خلل واقع ہوتا ہے۔ میں نے سید محمد بن عفان اور سید شہاب الدین سے زیادہ مسواک پر ہمیشگی کرنے والا اور مسواک پر سب سے زیادہ حریص کسی کو نہیں پایا۔ یہ سب باتیں قوتِ ایمان اور اللہ ورسول کے احکامات کی تعظیم سے ہیں۔حضور اقدسﷺ نے مسواک کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ ایک بار حکم کرنے پراکتفا نہیں فرمایا، اس لیے اے بھائی! مسواک کو لازم کرلے اور حضور ﷺ کی سنت پر ثابت قدم رہ، تاکہ تجھ کو اس سنت کا ثواب
بِہٖ مَرَّۃً وَاحِدَۃً، فَلَازِمْ یَا أَخِيْ، عَلَی السُّنَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ؛ لِتَجْنِيَ ثَمَرَۃَ ثَوَابِھَا فِيْ الْاٰخِرَۃِ، فَإِنَّ لِکُلِّ سُنَّۃٍ سَنَّھَا ؑ دَرَجَۃً فِي الْجَنَّۃِ لَا تُنَالُ إِلَّا بِفِعْلِ تِلْکَ السُّنَّۃِ۔ وَمَنْ قاَلَ مِنَ الْمُتَھَوِّرِیْنَ: ھَذِہِ سُنَّۃٌ یَجُوْزُ تَرْکُھَا، یُقَالَ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ: وَھَذِہِ دَرَجَۃٌ یَجُوْزُ حِرْمَانُکَ فِیْھَا، صَرَّحَ بِذٰلِکَ
حاصل ہوجائے، کیوںکہ ہر سنت کا ایک مخصوص درجہ ہے جو اس سنت کو اپنائے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔جو بے پروا لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سنت ہے اس کا ترک کرنا جائز ہے، ان سے قیامت میں کہا جائے گا کہ یہ جنت کا ایک درجہ ہے تجھ کو اس سے محروم کرنا بھی جائز ہے۔ ابوالقاسم ابن قسی ؒ نے اپنی کتاب’’ خلع النعلین‘‘ میں اس کی صاف طور پر تصریح کی ہے۔
أَبُوْ الْقَاسِمِ ابْنُ قُسَيْ فِيْ کِتَابِہٖ الْمُسَمّٰی بِـ ’’خَلْعِ النَّعْلَیْنِ‘‘۔1
علامہ عینی کا ارشاد :
قَالَ الْعَیْنِيُّ فِي الْبِنَایَۃِ: قَالَ أَبُوْ عَمْروٍ: وَفَضْلُ السِّوَاکِ مُجْمَعٌ عَلَیْہِ لَا اخْتِلَافَ فِیْہِ۔ وَالصَّلَاۃُ عِنْدَ الْجَمِیعِ أَفْضَلُ مِنْہُ بِغَیْرِھَا، حَتّٰی قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: ھُوَ شَطْرُ الْوُضُوْئِ، وَقَالَ فِيْ شَرْحِ الْبُخَارِيِّ: وَفَضَائِلُہٗ کَثِیْرَۃٌ۔ وَقَدْ ذَکَرْنَا فِيْ شَرْحِنَا لِمَعَانِيْ الْآثَارِ لِلطَّحَاوِيِّ مَا وَرَدَ فِیْہِ عَنْ أَکْثَرَ مِنْ خَمْسِیْنَ صَحَابِیًّا۔