وفي السراج: وإسنادہ ضعیف۔
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم اپنے کپڑوں کو دھوؤ اور اپنے بالوں کی اصلاح کرو اور مسواک کرکے نظافت اور زینت حاصل کرو کیوں کہ بنی اسرائیل ان چیزوں کا اہتمام نہیں کرتے تھے، اسی لیے ان کی عورتوں نے (کثرت سے) زنا کیا۔
فائدہ: مطلب یہ ہے کہ پاک صاف رہو اور جائز زینت اختیار کرو۔ مسواک بھی استعمال کرو تاکہ منہ میں بدبو وغیرہ پیدا نہ ہو اور اپنی شکل کو بد زیب نہ ہونے دو کہ اس کی وجہ سے تمہاری عورتیں تم سے نفرت کرنے لگیں گی اور غیروں کی طرف مائل ہوجائیں گی اور زنا سے محفوظ نہ رہ سکیں گی ۔ یہی وجہ ہے کہ چوں کہ بنی اسرائیل نے ان چیزوں کا اہتمام نہیں کیا اس لیے ان کی عورتیں کثرت کے ساتھ زنا میں مبتلا ہوئیں۔
’’سراج منیر‘‘ میں لکھا ہے کہ عورتوں کو بھی ان چیزوں کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ مرد بھی دوسری عورتوں کی طرف مائل نہ ہوں اور زنا سے بچ جائیں۔ معلوم ہوا کہ مسواک کے ذریعہ زنا سے بھی حفاظت ہے۔
حضور ﷺ پر مسواک کی فرضیت:
عَنْ عَائِشَۃَؓ أَنَّہُ ﷺ قَالَ: ھٰذِہٖ لَکُمْ سُنَّۃٌ وَعَلَيَّ فَرِیْضَۃٌ، اَلسِّوَاکُ وَالْوِتْرُ وَقِیَامُ اللَّیْلِ۔ وفي إسنادہ موسی بن عبد الرحمن الصغاني وھو متروک۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ چیزیں یعنی مسواک، وتر، تہجد، تمہارے لیے سنت ہیں اور میرے لیے فرض ہیں۔
فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ مسواک عام امت کے حق میں سنت ہے اور حضرت رسول کریم ﷺ پر فرض ہے۔ا بوداود شریف کی روایت ہے کہ پہلے حضور ﷺ کو ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا حکم کیا گیا تھا خواہ آپ ﷺ باوضو ہوں یا بے وضو، لیکن جب آپ کو اس میں دشواری پیش آئی تو آپ ﷺ کو ہر نماز کے لیے مسواک کا حکم فرمایا گیا۔ یعنی ہر نماز کے لیے مسواک فرض کردی گئی۔
سونے سے پہلے مسواک:
۱۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ لَا یَنَامُ لَیْلَۃً وَلَا یَنْتَبِہُ