حضرت یزید ؒ سے منقول ہے کہ حضرت میمونہ ؓ کی مسواک ہمیشہ برتن میں رکھی رہتی
سِوَاکًا کَانَ لَا یَزَالُ فِيْ إِنَائٍ، فَإِنْ شَغَلَہَا عَمَلٌ أَوْ صَلَاۃٌ وَإِلَّا أَخَذَتِ السِّوَاکَ فَاسْتَاکَتْ۔1
تھی، نماز یا اور کوئی عمل مانع ہوتا تو خیر، ورنہ آپ مسواک کرلیتیں اور استعمال فرماتیں۔
فائدہ: مسواک جس طرح مردوں کے لیے سنت ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی سنت ہے، لیکن بعض فُقہا کہتے ہیں کہ عورتوں کے دانت چوں کہ کمزور ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے علک کا استعمال مسواک کے قائم مقام ہے ان کو مسواک کی بجائے علک استعمال کرنا چاہیے۔ اس سے دانت صاف اور مسوڑھے مضبوط ہوجاتے ہیں اور مسواک کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے، لیکن ثواب کی شرط یہ ہے کہ استعمال کے وقت مسواک کی نیت ہو، اگر نیت ہوگی تو ثواب ہے ورنہ نہیں۔2
میاں بیوی کی مسواک:
عَنْ عَائِشَۃَؓ قَالَتْ: کَانَ النَّبِيُّﷺ یَسْتَاکُ، فَیُعْطِیْنِيْ لِأَغْسِلَہُ، فَأَبْدَأُ بِہِ فَأَسْتَاکُ، ثُمَّ أَغْسِلُہُ وَأَدْفَعُہُ إِلَیْہِ۔3
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ مسواک کرنے کے بعد اپنی مسواک دھونے کے لیے مجھے دے دیا کرتے تھے۔ میں
اوّلًا اس کو خود استعمال کرتی اور پھر اس کو دھو کر حضور ﷺ کو دے دیتی تھی۔
فائدہ: حضرت عائشہ ؓ کا مسواک واپس دینا ہوسکتا ہے کہ اسی وقت ہو یا اور کسی دوسرے وقت ہو۔ شراحِ حدیث نے دونوں احتمال لکھے ہیں۔ اور اس دینے کی غرض بھی دو تحریر کی ہیں: ایک حفاظت، دوسرے استعمالِ مسواک کی تکمیل، یعنی حضور ﷺ کو مسواک دوبارہ اس لیے دیتیں تاکہ آپ ﷺ پورے طورپر مسواک کرلیں۔ اور یا اس لیے کہ آپ ﷺ اس کو محفوظ کرلیں اور اپنے پاس رکھیں۔ ثانی احتمال ظاہر کے خلاف ہے، اور اس میں بے ادبی ہے، اور اس روایت کے بھی خلاف ہے جس میں وارد ہے کہ ہم حضور ﷺ کے لیے وضو کا پانی اور مسواک تیار رکھتے تھے۔