سُنَّۃَ نَبِیِّيْ وَلَمْ تَبْذُلْ فِيْ تَحْصِیْلِھَا مَا خَصَّکَ اللّٰہُ بِہٖ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ، فَأَعْجَزَہٗ وَمَضٰی۔ وَأَظُنُّکَ یَا أِخِيْ لَوْ طَلَبَ مِنْکَ صَاحِبُ السِّوَاکِ نِصْفًا وَاحِدًا حَتّٰی یُعْطِیَہُ لَکَ لَتَرَکْتَ السِّوَاکَ وَقَدَّمْتَ النِّصْفَ، وَأَنْتَ مَعَ ذٰلِکَ تَزْعَمُ أَنَّکَ أَوْلِیَائُ اللّٰہِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ، وَاللّٰہِ إِنَّھَا دَعْوٰی لَا بُرْھَانَ لَھَا۔
نہ کیا۔ بعض لوگوں نے (حضرت شبلی ؒ کے) اس دنیار خرچ کرنے کو زیادتی پر محمول کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں اللہ کے نزدیک مچھر کے پَر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں، میں اُس وقت کیا جواب دوں گا جب کہ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ تونے میرے نبی کی سنت (مسواک) کو کیوں ترک کیا،جو مال ودولت میں نے تجھ کو دیا تھا، (جس کی حقیقت میرے نزدیک) مچھر کے پَر کے برابر بھی نہ تھی اس کو اس سنت (مسواک) کے حاصل کرنے میں کیوں خرچ نہیںکیا۔پس (حضرت شبلی ؒ نے )اس (معترض) کو لاجواب کردیا، اور وہ چلا گیا، اے میرے بھائی! میرا خیال تو یہ ہے کہ
اگر تجھ سے کوئی مسواک والا آدھا دینار بھی مسواک کی قیمت مانگے تو تو ہر گز نہ دے گا اور مسواک چھوڑ دے گا، مگر اس عمل کے باوجود تو اپنے آپ کو اولیاء اللہ اور حضورﷺ کے مقربین سے شمار کرتا ہے۔ خدا کی قسم یہ ایک دعویٰ ہے جو بے دلیل ہے۔
شوکانی کی تصریح:
قَالَ الشَّوْکَانِيُّ فِيْ نَیْلِ الْأَوْطَارِ: وَھِيَ أَمْرٌ مِّنْ أُمُوْرِ الشَّرِیْعَۃِ، ظَھَرَ ظُھُوْرَ النَّھَارِ، وَقَبِلَہٗ مِنْ سُکَّانِ الْبَسِیْطَۃِ أَھْلِ الْأَنْجَادِ وَالْأَغْوَارِ۔
’’نیل الاوطار‘‘ میں شوکانی فرماتے ہیں کہ: مسواک احکامِ شرعیہ میں ایک واضح حکم ہے، جو روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے، جس کو اونچے اور نیچے مقام کے رہنے والوں نے (یعنی تمام) اہلِ ارض نے قبول کیا۔
علامہ شعرانی ؒ کا عہد:
قَالَالشَّعْرَانِيُّ فِيْ لَوَاقِحِ الْأَنْوارِ: أُخِذَ عَلَیْنَا الْعَھْدُ الْعَامُّ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ أَنْ نُوَاظِبَ عَلَی السِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ وُضُوْئٍ، وَإِنْ کَانَ مِنَّا یَقَعُ کَثِیْرًا رَبَطْنَاہُ فِيْ خَیْطٍ فِيْ عُنُقِنَا أَوْ عِمَامَتِنَا إِنْ کَانَتْ عَلٰی عَرَقِیَّۃٍ مِنْ غَیْرِ قَلَنْسُوَۃٍ، وَإِنْ کَانَتْ عَلٰی قَلَنْسُوَۃٍ وَشَدَدْنَا عَلَیْھَا الْعِمَامَۃَ رَشَقْنَاہُ فِي الْعِمَامَۃِ مِنْ جِھْۃِ الْأُذُنِ الْیُسْریٰ، وَھٰذَا لَعَھْدٌ قَدْ أَخَلَّ بِہِ غالِبُ الْعَوَامِّ مِنَ التُّجَّارِ وَالْوُلَاۃِ وَحَاشِیَتِھِمْ، فَتَصِیْرُ رَوَائِحُ أَفْوَاھِھِمْ مُنْتِنَۃً قَذِرَۃً وَذٰلِکَ اِخْلَالٌ بِتَعْظِیْمِ اللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَصَالِحِ الْمُؤْمِنِیْنَ فَضْلًا عَنْ غَیْرِ الْمَلَائِکَۃِ وَالصَّالِحِیْنَ۔ وَمَا رَأَیْتُ أَکْثَرَ مُوَاظَبَۃً وَلَا حِرْصًا عَلَی السِّوَاکِ مِنْ سَیِّدِيْ مُحَمَّدِ بْنِ عَفَّانَ وَسَیِّديْ شِھَابُ الدِّیْنِ، وَکُلُّ ذٰلِکَ مِنْ قُوَّۃِ الإِْیْمَانِ، وَتَعْظِیْمِ أَوَامِرِ اللّٰہِ