حصوں تک پہنچائے تاکہ سینہ اور حلق کا بلغم ختم ہوجائے۔ اور خوب اچھی طرح مسواک کرنے سے قلاح جو منہ کی ایک بیماری ہے دو رہوجاتی ہے، آواز صاف اور منہ کی بو عمدہ ہوجاتی ہے۔
طبِ نبوی ص:۲۱۵-۲۲۱ میں ہے: اعتدال کے ساتھ مسواک کا استعمال کرنا مناسب ہے، کیوںکہ بسا اوقات مسواک کی زیادتی سے دانتوں کی آب وتاب ختم ہوجاتی ہے اور دانتوں میں ان گندے بخارات کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے جو معدہ سے اوپر کی جانب چڑھتے ہیں۔ اور اعتدال کے ساتھ مسواک کرنے سے دانت صاف اور روشن ہوجاتے ہیں۔ قوت اور زبان کی تیزی بڑھ جاتی ہے۔ دانتوں کی زردی جاتی رہتی ہے اور منہ کی بوعمدہ ہوجاتی ہے۔ نیز دماغ کا تنقیہ ہے اور کھانے کا اشتہا بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ بعض اطبا نے لکھا ہے کہ مسواک کرنے میں بہت مبالغہ کرنا اور دیر تک دانتوں کو رگڑتے رہنا ہرگز مناسب نہیں، اس سے دانتوں کا مینائے داندان (ینمل) ضائع ہوجاتا ہے (جس سے دانتوں کی صفائی، قوت اور چمک دمک قائم رہتی ہے) وہ بہت جلد کمزور ہوجاتے ہیں ہلنے لگتے ہیں اور گر جاتے ہیں۔
بعض اوقات مسواک کی زیادتی سے یا اس کے استعمال میں بے احتیاطی کرنے سے مسوڑھے ۔ِچھل جاتے ہیں، ان سے خون بہنے لگتا ہے، زخم ہوجاتے ہیں اور بتدریج پائیریا تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
اس میں اختلاف ہے کہ مسواک عرضا۔ً کی جائے یا طولاً، ایک جماعت کی رائے ہے کہ عرضا۔ً کی جائے طولًا نہ کی جائے کہ اس صورت میں مسوڑوں کے زخمی ہوجانے کا خوف ہے۔ بعض ۔ُفقہا کہتے ہیں کہ طولًا عرضا۔ً دونوں طرح کرسکتے ہیں۔ صاحب ِحلیۃ ؒکہتے ہیں کہ عرضا۔ً دانتوں میں کی جائے اور طولاً زبان میں۔ حضور اقدس ﷺ سے دونوں طرح ثابت ہے، اس لیے عرضا ۔ً و طولاً دونوں طرح مسواک کی جاسکتی ہے۔
اس میں بھی اختلاف ہے کہ سنت محض مسواک کرنے سے ادا ہوجاتی ہے یا منہ کی بدبو کا زائل کرنا ضروری ہے۔ دونوں قول ہیں۔ حافظ عراقی ؒ فرماتے ہیں کہ ملائکہ کا منہ کی بدبو سے تکلیف پانا جو اس کی علت قرار دیا گیا ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ ادائیگی سنت کے لیے بدبو کا ازالہ ضروری ہے۔1
انگلی سے مسواک: اگر مسواک نہیں ہے یا مسواک ہے، لیکن دانت نہیں ہیں تو پھر انگلی یا کسی موٹے کپڑے سے دانتوں یا مسوڑوں کو صاف کرلینا مسواک کے قائم مقام ہے، اس سے مسواک کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے۔ ’’محیط‘‘ میں ہے کہ:
اَلتَّشْوِیْصُ بِالْمُسَبِّحَۃِ وَالإِْبْھَامِ سِوَاکٌ۔
دانتوں کا انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے رگڑنا بھی مسواک ہے۔