خانیہ میں ہے: مناسب یہ ہے کہ مونچھیں اتنی کاٹی جائیں کہ اوپر کے ہونٹ کے کنارے کے برابر اور بھوں کی مانند ہوجائیں۔
وروایت شدہ است از امام ابوحنیفہ کہ شارب بمقدارِ ابرو باید۔2
امام ابوحنیفہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ابرو کے بقدر ہونا چاہییں۔
ب: مونچھیں تراش کر اتنی پَست کردی جائیں کہ مونڈی ہوئی مونچھوں کے مشابہ ہوجائیں اور مزید کاٹنے کی گنجایش نہ رہے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ سبالین یعنی مونچھوں کے دائیں بائیں دونوں کنارے مونچھوں ہی کے حکم میں ہیں ان کا کترنا جائز ہے۔ طحطاوی میں ہے:
وَیَشْرَعُ قَصُّ السَّبَالَیْنِ مِنْہُ؛ لِأَنَّھُمَا مِنْہُ۔
مونچھوں کے سبالین (دونوں کنارے) کترنا جائز ہے، کیوںکہ یہ مونچھ ہی کے جز ہیں۔
لیکن اگر ان کو نہ کاٹا جائے تو اس کی بھی گنجایش ہے، بعض ۔َمشایخ اور صحابہ ؓ سے ان کا نہ کاٹنا بھی منقول ہے چناںچہ’’ لمعات‘‘ میں ہے:
وزیادہ گذاشتن دنبالھائے بروت کہ آں را سبالہ گویند نیز آمدہ است کہ از امیر المؤمنین عمر و بعض صحابہ دیگر منقول است۔3
مونچھوں کا دنبالہ جس کو عربی میں سبالہ کہتے ہیں چھوڑ دینا (نہ کاٹنا) بھی امیر المؤمنین حضرت عمر ؓ اور بعض دوسرے صحابہ سے منقول ہے۔
۲۔ ڈاڑھی بڑھانا:ڈاڑھی رخسار اور ٹھوڑی پر اُگنے والے بالوں کو کہتے ہیں، جن کی ابتدا کنپٹی کے نیچے کی ہڈی سے ہوتی ہے۔
ڈاڑھی یکمشت رکھنا واجب اور ضروری ہے اور اس سے زائد کی بھی گنجایش ہے بشرطے کہ حدِ اعتدال سے خارج نہ ہو، لیکن یکمشت سے کم کرنا یا پوری ڈاڑھی کترنا جائز نہیں، ایسا کرنے والا شخص فاسق اور گناہ گار ہے اس کی امامت، اذان واقامت مکروہ ہے۔