بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ
یوں آنے کو تو سب ہی آئے، سب میں آئے، سب جگہ آئے۔( سلام ہو ان پر) کہ بڑی کٹھن گھڑیوں میں آئے، لیکن کیا کیجیے ان میں جو بھی آیا جانے کے لیے آیا۔
پر ایک اور صرف ایک، جو آیا اور آنے ہی کے لیے آیا۔ وہی جو آنے کے بعد پھر کبھی نہیں ڈوبا۔چمکا اورچمکتا ہی چلا جا رہا ہے، بڑھا اور بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، چڑھا اور چڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ سب جانتے ہیں اور سبھوں کو جاننا چاہیے کہ جنہیں کتاب دی گئی اور جو نبوت کے ساتھ کھڑے کیے گئے، برگزیدوں کے اس پاک گروہ میں اس کا استحقاق صرف اسی کو ہے اور اس کے سوا کس کو ہو سکتا ہے جو پچھلوں میں بھی اس طرح ہے جس طرح پہلوں میں تھا۔ دُور والے بھی اس کو ٹھیک اسی طرح پا رہے ہیں اور ہمیشہ پاتے رہیں گے جس طرح نزدیک والوں نے پایا تھا۔ جو آج بھی اسی طرح پہچانا جاتا ہے اور ہمیشہ پہچانا جائے گا جس طرح کل پہچانا گیا تھا کہ اسی کے اورصرف اسی کے دن کے لیے رات نہیں، ایک اسی کا چراغ ہے جس کی روشنی بے داغ ہے۔
ورنہ جنہوں نے ناموں کو کھویا کیا وہ اپنے ہادیوں کے کاموں کی نگہبانی کر سکتے تھے؟ ہمارے ملک میں وَید کی صورت میں اَوتاروں کا کام پیش کیا جاتا ہے، لیکن لا پروائو! تم سے جب ان کے ناموں کا بھی بوجھ نہ اٹھایا گیا تو ہمیں کیا دکھاتے ہو کہ یہ ہے ان کے کاموں کا پُشتارہ!!
تاریخ کے تحقیقی ہاتھوں نے ہندوستان کے رہنمائوں اور ان کی امتوں کے درمیان جو اندھیری کھائیاں کھودی ہیں اور مسلسل کھدتی چلی جا رہی ہیں، کیا اب آدمی کے بس میں ہے کہ ان کو پاٹے؟
کن پراُتری؟کہاںاُتری؟کن کن زبانوںمیںاُتری؟ نظم میںاُتری کہ نثرمیں اُتری؟ صدیوںمیںاُتری؟ جگہوںمیںاُتری؟ جب ان تمام بنیادی سوالات پر، ایسے سوالات جن کی تحقیق کے بغیر کسی چیز کے ہونے نہ ہونے کا فیصلہ اٹکا ہوا ہے، تم خود جانتے ہو کہ ان پر اندھیرا اور گھپ اندھیرا چھایا ہوا ہے، بتائو کہ شک کی ان دلدلوں میںیقین کا قدم کس طرح اٹھایا جائے گا؟ 1
تم ان سے اوجھل ہو وہ تم سے اوجھل ہیں، پھر کس راہ سے تم اُن کو تاکو گے جن کو تاک کرتم چلنا چاہتے ہو؟ اور کس طرح وہ اپنے تئیں تمہیں دکھائیں جو اپنے کو دکھاکر تمہیں چلانا چاہتے ہیں؟
ہو سکتا ہے کہ بدھ اور بدھ مت والوں نے تم کو ان سے توڑا ہو، حالاںکہ سچ یہ ہے کہ بدھ سے بہت پہلے بھارت ورش اور